تحریر : سید توقیر زیدی کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے سیلاب کے نقصانات سے بچ سکتے ہیں۔چترال میں شدید بارش کے بعد سیلاب نے تباہی مچادی۔ بارش سے سیلابی ریلے نے راستے میں آنیوالی ہر شے کو تہس نہس کردیا جبکہ 44′ افراد ریلے میں بہہ کر جاں بحق ہوگئے اور درجنوں مکانات اوردیگر املاک تباہ ہوگئیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ارسون میں سیلابی ریلا ایک مسجد اور سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ سمیت درجنوں مکانات بہا کر لے گیا۔ ڈی پی او چترال کے مطابق سیلاب سے بڑے پیمانے پر نقصانات جنوبی چترال میں ہوئے ہیں جہاں 41 افراد لاپتہ ہیں جن میں آٹھ سکیورٹی اہلکار’ خواتین اور چار بچے بھی شامل ہیں ۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان’ سابق صدر آصف علی زرداری اور دوسری سیاسی شخصیات نے بھی چترال میں سیلابی ریلے سے ہونیوالی تباہ کاریوں پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
محکمہ موسمیات کی جانب سے تو گزشتہ ماہ ہی مون سون کا قبل ازوقت آغاز ہونے اور غیرمعمولی بارشوں کی پیش گوئی کرتے ہوئے بروقت حفاظتی انتظامات کیلئے متنبہ کردیا گیا تھا۔نکاسی آب کے مناسب انتظامات نہ ہونے کے باعث نشیبی ہی نہیں’ کئی پوش ایریاز میں بھی سیلاب کی کیفیت پیدا ہوچکی ہے جس میں جانی اور مالی نقصانات بھی رپورٹ ہو رہے ہیں۔ پنجاب کے مختلف علاقوں سمیت اسلام آباد میں بھی موسلادھار بارش کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور خستہ مکانوں کی چھتیں گرنے سے متعدد افراد کے ہلاک اور زخمی ہونے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔
چترال میں سیلاب کی تباہ کاریاں جہاں وفاقی اور خیبر پی کے حکومت اور متعلقہ انتظامی مشینری کیلئے لمحہ فکریہ ہے وہیں کالاباغ ڈیم کے مخالف سیاست دانوں کیلئے بھی کم از کم شرمسار ہونے کا مقام تو ہے کیونکہ کالاباغ ڈیم تعمیر ہونے کی صورت میں بالخصوص خیبر پی کے میں ہربار وسیع پیمانے پر ہونیوالی تباہ کاریوں سے بچا جا سکتا تھا۔ 2010ء میں بھارت کی جانب سے آبی دہشت گردی کی نیت سے مون سون کے دوران سارا فالتو پانی پاکستان کی جانب چھوڑنے سے ملک بھر میں آنیوالے سیلاب سے وسیع پیمانے پر جانی اور مالی نقصانات ہوئے اور خاص طور پر خیبر پی کے کے شہر نوشہرہ کو زیادہ تباہ کاریوں کا سامنا کرنا پڑا۔
Yousaf Raza Gilani
اس وقت وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور وفاقی وزیر مخدوم امین فہیم نے اعتراف کیا تھا کہ آج کالاباغ ڈیم موجود ہوتا تو خیبر پی کے میں اتنے وسیع پیمانے پر سیلاب کی تباہ کاریاں نہ ہوتیں مگر اس احساس کے باوجود حکمرانوں نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی جانب توجہ نہ دی اور 18ویں آئینی ترمیم کی متفقہ منظوری کی خاطر حکومت نے این پی کی قیادت کے ہاتھوں بلیک میل ہو کر کالاباغ ڈیم کی فائل ہی بند کردی جس پر اے این پی کے صدر اسفندیار ولی نے فخریہ انداز میں یہ اعلان کیا تھا کہ ہم نے کالاباغ ڈیم کی فائل دریائے سندھ میں ڈبو دی ہے جبکہ کالاباغ ڈیم کی مخالفت کا کوئی جواز ہے نہ استدلال۔ کالاباغ ڈیم کے مخالفین پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کے محض بھارتی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے اسکے آلہ کار کی حیثیت سے شوروغوغا کرتے ہیں اور اس طرح انہوں نے ملکی ترقی و خوشحالی کے ضامن کالاباغ ڈیم کو مفاداتی سیاست کی نذر کردیا ہے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ اب سابق حکمران پیپلزپارٹی کالاباغ ڈیم کی مخالفت میں پیش پیش ہے اور اپنے مدلل طویل مضمون کے ذریعے کالاباغ ڈیم کی افادیت اجاگر کرنیوالے چیئرمین واپڈا ظفرمحمود کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ گئی ہے۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے محض سیاست چمکانے کی خاطر چیئرمین واپڈا پر یہ کہہ کر چڑھائی کردی کہ ایک سرکاری ملازم کو کالاباغ ڈیم کی وکالت کا کس نے مینڈیٹ دیا ہے۔ اس تناظر میں انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ چیئرمین واپڈا وفاقی حکومت کی ملی بھگت سے کالاباغ ڈیم کا ایشو اٹھا رہے ہیں تاکہ حکومت بجلی کی لوڈشیڈنگ پر پڑنے والے عوامی دبائو سے بچ سکے۔
سید خورشید شاہ کے بعد پیپلزپارٹی کے ارکان اسمبلی کی جانب سے قومی اسمبلی میں چیئرمین واپڈا کیخلاف تحریک التواء بھی داخل کرادی گئی جو بہترین قومی مفادات کے حامل منصوبے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی نوبت نہ آنے دینے کی سازش ہے۔ اب جبکہ چترال میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے کالاباغ ڈیم کی اہمیت اور بھی اجاگر ہو گئی ہے تو پیپلزپارٹی اور کالاباغ ڈیم پر سیاست کرنیوالے دوسرے قائدین کو محض مخالفت برائے مخالفت کی روش ترک کرکے اصل حقائق کا دراک کرنا چاہیے اور کالاباغ ڈیم کی تعمیر میں روڑے اٹکانے کا سلسلہ بند کردینا چاہیے۔