ڈھاکہ (جیو ڈیسک) بنگلہ دیش کو ایک نئے چیلنج کا سامنا ہے جہاں امیر اور لبرل خاندانوں کے نوجوان دہشت گردی کی طرف مائل ہو رہے ہیں اور عالمی دہشت گرد تنظیموں سے نظریاتی وابستگی کا اظہار کر رہے ہیں۔
بنگلہ دیش میں بدترین دہشت گرد حملے کے بعد وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے سکولوں اور یونیورسٹیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ایسے طلبا کی فہرست جاری کریں جو غیر حاضر ہیں۔ ڈھاکہ کے ایک ریستوران پر حملہ کرنے والے افراد ملک کے معروف سکولوں اور کالجوں سے تعلیم یافتہ تھے۔
شیخ حسینہ نے والدین اور سرپرستوں سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ لاپتا نوجوانوں کے بارے میں اطلاع دیں اور وعدہ کیا ہے کہ حکومت انہیں ڈھونڈنے میں مدد دے گی۔ ٹیلی وژن اور انٹرنیٹ کے ذریعے نوجوانوں میں انتہا پسندی کے فروغ کے بعد حکام نے سماجی رابطے کی ایسی ویب سائیٹوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے جو سخت گیر نظریات پھیلاتی ہیں۔
حکومت نے بھارت کے ایک قدامت پسند عالم ذاکر نائیک کی طرف سے چلائے جانے والے ایک ٹی وی چینل کو بھی بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ اقدامات ایسے وقت کیے گئے ہیں جب بنگلہ دیش کو ایک نئے چیلنج کا سامنا ہے جہاں امیر اور لبرل خاندانوں کے نوجوان دہشت گردی کی طرف مائل ہو رہے ہیں اور عالمی دہشت گرد تنظیموں سے نظریاتی وابستگی کا اظہار کر رہے ہیں۔
اس رجحان سے اس تاثر کی نفی ہوئی ہے کہ دہشت گردی تنظیمیں تمام بھرتیاں مدرسوں سے کرتی ہیں بنگلہ دیش کی حکومت نے دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے کا الزام ملک میں موجود شدت پسند گروہوں پر عائد کیا ہے۔
تاہم وزیراعظم کے بین الاقوامی امور کے مشیر گوہر رضوی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اگرچہ یہ واضح ہے کہ حالیہ حملوں میں ملوث افراد کا تعلق مقامی شدت پسند تنظیم جماعت المجاہدین سے ہے مگر پھر بھی حکام حملہ آوروں کے دیگر گروہوں سے رابطوں پر تحقیقات کر رہے ہیں۔
ڈھاکہ کے ایک ریستوران پر یکم جولائی کو ہونے والے حملے میں ملوث تمام افراد کی عمریں 22 سال سے کم تھیں اور انہوں نے 20 یرغمالیوں کو بے دردی سے قتل کر دیا تھا۔
چند دن بعد بنگلہ دیش کے تین نوجوانوں نے داعش کی ایک وڈیو میں ملک میں ایسے مزید حملے کرنے کی دھمکی دی تھی۔ تحقیقات سے معلوم ہوا تھا کہ ان نوجوانوں کا پس منظر بھی ایسا ہی تھا۔ حکام نے بتایا کہ ان میں سے ایک ڈھاکہ میں دانتوں کا معالج تھا، دوسرا گائیک بننا چاہتا تھا جبکہ تیسرا جس نے اپنا چہرہ جزوی طور پر ڈھانپا ہوا تھا، غالبا مینجمنٹ کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔
گوہر رضوی نے کہا کہ ’’بدقسمتی سے ایسے افراد کے بارے کوئی منظم معلومات موجود نہیں جو گھر چھوڑ کر چلے گئے ہیں یا تعلیمی اداروں سے غائب ہیں۔ ہم ایک ڈیٹا بیس بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ یہ جان سکیں کہ ان لاپتا افراد کے کن سے روابط ہیں۔‘‘ گزشتہ دو سال کے دوران بنگلہ دیش میں سیکولر مصنفوں، غیر ملکیوں اور مذہبی اقلتیوں سے تعلق رکھنے افراد کو تواتر سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
دریں اثنا، جمعرات کو کشور گنج میں عید الفطر کی نماز کے موقع پر بم سے حملہ کیا گیا جس میں امام مولانا فرید الدین مسعود بال بال بچ گئے۔ اس حملے میں کم از کم چار افراد ہلاک ہوئے۔ مولانا فرید الدین نے چند دن قبل ہی فتویٰ جاری کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ تشدد اور معصوم لوگوں کی زندگی لینا اسلام کے منافی ہے۔
عیدگاہ میں مولانا فرید الدین کی آمد سے چند منٹ قبل ہی پولیس نے بموں، پستولوں اور چھریوں سے مسلح افراد کو روکا جو عیدگاہ کی طرف جا رہے تھے جہاں تین لاکھ کے قریب افراد نماز عید کے لیے جمع تھے۔ ان افراد کو روکنے پر سلوکیہ عیدگاہ کے باہر موجود چیک پوسٹ پر لڑائی شروع ہو گئی۔
اطلاعات کے مطابق شدت پسندوں نے پولیس پر ایک دیسی ساختہ بم پھینکا جس سے دو پولیس اہلکار، قریب موجود ایک خاتون اور ایک شدت پسند ہلاک ہو گئے جبکہ ایک درجن کے قریب افراد زخمی ہوئے۔ جبکہ ایک زخمی 19 سالہ شدت پسند کو زندہ پکڑ لیا گیا ہے۔