تحریر: محمد اشفاق راجا قیام پاکستان کے بعد نوزائیدہ مملکت میں جہاں دوسرے اداروں کا قیام ضروری سمجھا گیا، وہاں ملک کے سب سے بڑے قومی کتب خانے کا قیام بھی لازمی امر تھا۔ چنانچہ دوسرے ممالک کے قومی کتب خانوں کی طرح کراچی میں بھی جو ملک کا دارالحکومت تھا، 1950ء میں ایک قومی کتب خانے کی داغ بیل ڈالی گئی۔ قومی کتاب خانے نے اپنا کام کراچی میں اس وقت شروع کیا جبکہ 1951ء میں اس کو ڈائریکٹوریٹ آف آرکائیو اینڈ لائبریریز کی سرپرستی میں دے دیا گیا۔ 1954ء میں جب قومی کتب خانے میں لیاقت میموریل لائبریری بھی شامل کر دی گئی تو اس کا نام لیاقت نیشنل لائبریری رکھا گیا۔ 1954ء میں لیاقت نیشنل لائبریری کو سیکریٹریٹ بلاک نمبر 76 سے میری ویدٹاور کے قریب پاکستان مسلم لیگ ہاوس کی عمارت میں منتقل کر دیا گیا۔ یہ عمارت تقسیم ملک سے قبل ہندو پنچایتی بلڈنگ کے نام سے مشہور تھی۔ قیام پاکستان کے بعد اس بلڈنگ میں مسلم لیگ کا ہیڈ آفس قائم کیا گیا تو اس کو پاکستان ہاوس کا نام دے دیا گیا۔
اس عمارت کے ایک تنگ و تاریک حصے میں ملک کی قومی لائبریری تقریباً دس سال تک علم و ادب کی خدمت کرتی رہی۔ (1958ء میں) ایوبی مارشل لاء کے فوری بعد مسلم لیگ ہاوس کو بند کر دیا گیا اور اس قدیم عمارت کو پاکستان انشورنس کمپنی کو دے دیا گیا۔ چنانچہ مسلم لیگ کا تاریخی ریکارڈ نہایت عجلت اور بے ہنگم طریقے سے کراچی سیکریٹریٹ کے ایک بلاک میں رکھ کر سیل بند کر دیا گیا جبکہ لیاقت نیشنل لائبریری کو 1964ء میں ناگزیر حالات کے پیش نظر ایک بار پھر لال کوٹھی کے قریب ایک بنگلہ میں منتقل کر دیا گیا۔
راقم اس وقت لیاقت نیشنل لائبریری میں ایک ادنیٰ کارکن ونے کے ناطے علم و ادب کے اس ذخیرہ کی خانہ بدوشی پر کف افسوس ملنے کے سوا اور کچھ نہ کر سکا تھا۔ بہرحال اس منتشر علمی سرمایہ کو کرایہ کی عمارت میں ایک بار پھر یکجا کیا گیا اور قارئین کے لیے اس کو آراستہ کر دیا گیا۔ کراچی کے پڑھے لکھے طبقے کو یہ تشویش تھی کہ لیاقت نیشنل لائبریری جو مرکزی حکومت کا ایک اہم ادارہ ہے کہیں دوسرے مرکزی دفاتر کی طرح نئے دارالحکومت اسلام آباد میں منتقل نہ ہو جائے اور اس طرح کراچی جو ملک کا سب سے بڑا شہر ہے اور عوامی کتب خانوں کی کمی کا پہلے ہی سے شکار ہے، ایک بڑے علمی ذخیرے سے محروم نہ ہو جائے مگر حکومت نے بروقت دانشمندانہ فیصلہ کیا کہ لیاقت نیشنل لائبریری کراچی میں بدستور اہل علم کی خدمات انجام دیتی رہے گی۔
Liaquat Memorial Library
اس طرح ایک بار پھر اس کتب خانہ کا نام لیاقت نیشنل لائبریری کے بجائے لیاقت میموریل لائبریری میں تبدیل کر دیا گیا اور اسلام آباد میں قومی کتب خانہ نئے سرے سے قائم کیا گیا۔ اس کے بعد لیاقت میموریل لائبریری کی عمارت کا کام جو اسٹیڈیم روڈ پر ٹی وی اسٹیشن کے ساتھ زیر تعمیر تھی، جلد مکمل کیا گیا اور لیاقت میموریل لائبریری کو اس نئی عمارت میں منتقل کر دیا گیا۔ اب یہ کتب خانہ 28 فروری 1986ء سے حکومت سندھ کی زیر نگرانی کام کر رہا ہے۔ کتب خانے میں مطالعہ کا ایک بڑا کمرہ حوالہ جاتی کتب پر مشتمل ایک ہال، ٹیکنیکل سیکشن، اخبارات و جرائد کا سیکشن، مسودات اور نایاب ذخیرہ کتب کا شعبہ اور قدیم کتابوں و رسائل کی مرمت اور دیکھ بھال کا یونٹ سرکاری ملازمین اور عوام کی بہتر خدمات انجام دے رہا ہے۔ کتب خانے میں شام کی شفت کا اجراء بھی کیا گیا ہے تا کہ دن کو مصروف ملازمین اور کاروباری حضرات شام کے اوقات میں کتب خانے کی خدمات سے فائدہ اٹھا سکیں۔ کتب خانے میں ایک لاکھ سے زائد کتابیں موجود ہیں جن میں پاکستان کے عظیم رہنما قائداعظم، علامہ اقبال اور دوسرے رہنماوں پر مخصوص علمی مواد کی فراہمی پر توجہ دی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ تاریخ پاکستان، ادب، انگلش، اْردو اور دوسری زبانوں کی کتابوں کو خریدنے کا مناسب انتظام ہے۔ کتابیں، کاپی رائٹ ایکٹ کے تحت پبلشرز حضرات کے ذریعہ سے وصول ہوتی ہیں۔ یہ قانون 1962ء میں حکومت پاکستان نے نافذ کیا۔ اس قانون کے تحت پبلشرز کے لیے اپنی کتاب کی ایک کاپی لیاقت میموریل لائبریری میں جمع کرانا لازمی قرار دیا گیا تھا۔ (بنگلہ دیش کے قیام کے بعد اب ہر ناشر لیاقت میموریل لائبریری اور نیشنل لائبریری اسلام آباد کو اپنی مطبوعات کی ایک کاپی لازمی طور پر جمع کروانے کا پابند ہے)۔ چنانچہ لیاقت میموریل لائبریری کراچی میں ایک شعبہ قائم کیا گیا جس کو ڈیلیوری آف بکس اینڈ نیوز پیپرز برانچ کا نام دیا گیا۔ اس شعبہ میں کاپی رائٹ قانون کے تحت ملک میں ہر قسم کے مطبوعہ مواد کی ایک ایک کاپی جمع کرانی لازمی قرار پائی۔ یہ شعبہ کاپی رائٹ کے تحت وصول ہونے والے مواد پر مشتمل ایک سالانہ فہرست تیار کرنے کا ذمہ دار ہے۔
Library Books
چنانچہ پاکستان نیشنل ببلیوگرافی برائے 1962ء شائع کی گئی۔ یہ سلسلہ اب نیشنل لائبریری آف پاکستان اسلام آباد میں جاری ہے۔ لائبریری کے انتظام اور دیکھ بھال کے لیے پچاس سے زائد افراد کا عملہ متعین کیا گیا ہے جن میں پندرہ افراد تربیت یافتہ اور باقی افراد غیر تربیت یافتہ ہیں۔ لائبریری سے کتابیں جاری نہیں کی جاتیں بلکہ صرف مطالعہ کے لیے لائبریری ہی میں مہیا کی جاتی ہیں۔ دار المطالعہ ایک بڑے ہال پر مشتمل ہے جس میں گیلری بھی ہے۔ لائبریری میں رسائل کا ایک الگ شعبہ ہے جہاں اْردو اور انگریزی کے رسائل و جرائد حاصل کیے جاتے ہیں۔ کتب خانہ کا اصل ذخیرہ ان کتب پر مشتمل ہے جو 1960ء کے عشرے میں جناب ولایت حسین شاہ مرحوم اور مہتمم کتب خانہ جناب ابن قیصر کی کتب دوستی کے سبب حاصل کیا گیا۔ کتب خانہ میں شعبہ انگریزی دیگر شعبوں سے بڑا ہے۔ کتب خا نہ سندھ حکومت کی نگرانی میں اہل کراچی کی علمی خدمات بڑی کامیابی سے انجام دے رہا ہے۔ اس میں چلڈرن سیکشن بچوں میں بڑا مقبول ہے۔ میموریل لائبریری میں نایاب کتب کو نہایت سلیقے سے آراستہ کیا گیا ہے۔
عربی اور فارسی مورخین کی تصانیف کے معتبر تراجم خاص طور پر حاصل کیے گئے ہیں۔ تاریخی کتب میں برصغیر کی جنگ آزادی 1857ء پر ہزاروں کتابیں موجود ہیں جو اس وقت اس موضوع پر تحقیق کرنے والے حضرات کے لیے گراں قدر مواد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کا ریکارڈ اور نوابین کی مراسلت و تاج برطانیہ اور کمپنی کے نام فرمانوں پر مشتمل بہت سی کتب اس لائبریری میں محفوظ کی گئی ہیں۔ گزٹیی اور جرائد بھی خاص تعداد میں ہیں جو تاریخ کے طالب علموں کو بیش بہا معلومات پہنچاتے ہیں۔ کتب خانہ میں مخطوطات اور نادر کتابوں کی بھی خاصی تعداد موجود ہے۔