تحریر ۔ شوکت مقبول بٹ گزشتہ ٦٩ سالوں سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ جموں کشمیر کے انسانوں کے سیاسی مستقبل کے متعین کرنے کے مسئلہ کو پاکستان کی توسیع پسندی کے مسئلہ کے طور پر ٹریٹ کیا ہے. اور ہمیشہ کشمیری عوام کی تحریک کے بڑے پیمانے پر چلاۓ جانے والے indigenous حصہ کو بھی تحریک تکمیل پاکستان کے طور پر پیش کرنے کی سازشیں کر کے جموں کشمیر کی آزادی کے کیس کو متنازعہ بنایا بلکہ اپنی احمقانہ طریقے پے مداخلت کے دستاویزی ثبوت دے کر بھارت کو کشمیریوں کی حقیقی تحریک کو بآسانی پاکستان سٹیٹ سپانسرڈ ٹیرورازم ثابت کرنے کا بھرپور موقعہ فراہم کیا۔
آج جب ایک مرتبہ پھر وادی کشمیر میں تین درجن جوان شہید کر دیے گئے ہیں. بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے قتال کا بازار گرم کر رکھا ہے احتجاج کے بین الاقوامی حق کے خلاف جس طرح سے ظلم اور جبر کی انتہا کر دی گئی ہے ایسے میں بھارتی سرکار کی شدید مذمت کرنے کی بجاۓ ایک مرتبہ پھر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے میڈیا کے ذریعے چند پاکستانی جھنڈے اور دو چارحواریوں کے “جیوے جیوے پاکستان” کے نعرے لگانے والوں کو فوکس کر کے اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے پیڈ فیورٹس کو فون کال کر کے لائیو ٹی وی پروگراموں میں ان سے اپنے من پسند خیالات کا اظہار کروا کے ایک مرتبہ پھر بھارت اور دنیا بھر کو اپنی مداخلت کے ناقابل تردید ثبوت فراہم کرنے شروع کر دیے ہیں۔
Iran and Afghanistan
حیرت اس بات پر ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ تاریخ سے سبق سیکھنے کے لئے تیار نہیں ہے. یہی گندہ کردار مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا گیا اور اسی کردار کی بدولت آج افغانستان کے عام عوام کی محبت نفرت میں تبدیل ہو چکی ہے. جبکہ ایران جیسے دوست ملک کے ساتھ چکر بازیوں نے قربت کو دوریوں میں تبدیل کر دیا ہے اور اب جموں کشمیر میں ناعاقبت اندیشانہ کھیل کھیل کر نفرت کی دیواروں کو مزید توسیع دے کر پورے پاکستان کو نفرت کے حصار میں مقید کیا جا رہا ہے۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی ذہنی پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ یہ دنیا کو خطہ میں اپنے منفی طرز عمل سے یہ موقعہ فراہم کرتی رہی ہے کہ “آ بیل مجھے مار”. کہتے ہیں کہ جن قوموں کی لیڈرشپ بصارت اور بصیرت سے محروم ہو ان کے دروازے پر بیل “دستک نہیں دیا کرتے۔۔