واشنگٹن (جیوڈیسک) وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ارنسٹ نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ “یہ گمان کیا جارہا ہے کہ (کیری کے دورے کے دوران) اس بارے میں سمجھوتہ طے پا جائے گا لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ایسا ہو گا” ۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکہ شام میں روس کے ساتھ مل کر نا تو فوجی کارروائیاں کر رہا اور نا ہی اس بارے میں وہ روس سے رابطے میں ہے۔
ترجمان کی طرف سے یہ بیان امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری کے روس کے دورے سے پہلے سامنے آیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ارنسٹ نے جمعرات کو نامہ نگاروں کو بتایا کہ “یہ گمان کیا جا رہا ہے کہ (کیری کے دورے کے دوران) اس بارے میں سمجھوتہ طے پا جائے گا لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ایسا ہو گا”۔
کیری جمعرات کو ماسکو پہنچے۔ ارنسٹ نے یہ بھی کہا کہ روس کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ آیا شام میں اس کی توجہ کا محور شدت پسندوں کی خلاف لڑنا ہے یا شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کو سہارا دینا ہے۔
“دونوں مقاصد کے حصول کی کوشش میں ایک بنیادی تضاد ہے۔۔ کیونکہ اسد کی حکومت کو سہارا دینے سے شام میں مزید افراتفری پھلیے گی اور انتہاپسند تنظیمیں افراتفری (کے ماحول) میں فروغ پاتی ہیں”۔ قبل ازیں جمعرات کو اسد نے کہا کہ روس نے کبھی بھی انہیں اقتدار سے الگ ہونے اور صدر کا عہدہ چھوڑنے کا نہیں کہا ہے۔
انٹرویو میں اسد نے کہا کہ نا تو روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور ناہی صدر ولادیمر پوتن نے انہیں اقتدار سے الگ ہونے کا کہا ہے۔ ان کا یہ کہنا ان قیاس آرائیوں کے برعکس ہے کہ روس اور امریکہ کے درمیان ہونے والے ایک غیر رسمی سمجھوتے میں انہیں اقتدار چھوڑ دینے کا کہا گیا تھا۔
توقع کی جا رہی ہے کہ رواں ہفتے ماسکو کے دورے کے دوران کیری متوقع طور پر شام میں نظر ثانی شدہ جنگ بندی اور امن کے ایک نئے لائحہ عمل کے لیے کوشش کریں گے۔
امریکی زیر قیادت اتحاد کی شام و عراق میں انتہا پسندوں کے خلاف فضائی کارروائیاں جاری ہیں۔ حالیہ مہینوں میں شدت پسند تنظم داعش کے عسکریت پسندوں نے ایک قابل ذکر علاقہ کھو دیا ہے۔