تحریر: میاں وقاص ظہیر آخر وہی ہوا جس کا خدشہ کی دنوں سے میرے جیسے احمق کو تھا ، خود کو شہرت کی بلندی میں پہنچانے میڈیا میں خبر بنے کیلئے جائز و ناجائز ، حرام حلال ، انسانی غیر انسانی ، اخلاقی و غیر اخلاقی ، من گھڑت اور مفروضی کہانیوں کے بل بوتے پر عوام کی توجہ حاصل کرنے کی ناکام کوشش کرنے والی قندیل بلوچ کا صرف گلہ نہیں بلکہ اس کی آواز کو بھی ہمیشہ کیلئے دبا دیا گیا ہے ، قندیل کا قتل ایک خاتون ایک ماڈل کا قتل نہیں یہ کردار کا قتل ہے۔
قندیل ذاتی طور پر جس بھی سوچ کی مالک تھی میں اس کی گہرائی میں ہر گز نہیں جانا چاہتا نہ ہی یہاں میں اس کی ذات کو فوکس کرنا چاہتا ہوں ، فلسفہ زندگی ہے شہرت اور دولت کا نشہ بہت کم لوگ اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ورنہ یہ ہماری فانی زندگی کا واحد وہ دھوکہ ہے جو چند لمحوں کیلئے ہماری زندگی میں آکر ہمارے اندر کے انسان کے رویئے کو باہر کے انسانوں کے سامنے برہنہ کر دیتا ہے پھر وہی ہوتا ہے جو قندیل بلوچ کے ساتھ ہوا ، قندیل کا قتل معاشرے میں ان انسانوں کیلئے پیغام ہے جو دولت ، شہرت اور طاقت کے نشے میں چور یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ سب عارضی چیزیں ہیں۔
Qandeel Baloch
ان کا تعلق سیاست سے ہو ، میڈیا سے یا نام نہاد چودھراہٹ سے ، مجھے بطور صحافی میڈیا سے بھی بے حد شکایات ہیں ، قندیل کے معاملے کو جس طرح مرچ مصالحہ لگا کر پیش کیا گیا ، معاشرے کے سامنے جو اس کا چہرہ دکھایا گیا اس کا انجام اس سے بڑھ کر کیا گھنائونا ہونا تھا جو آج قندیل کے ساتھ ہوا ، قندیل موت کی ذمہ دار جہاں وہ خود ہے وہاں ہم نے بھی تو اسے اس انجام تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ، اوپر سے نام نہاد عزت دار یہ کہہ رہے ہیں کہ قندیل کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ چلئے مان لیا۔۔
قندیل غیرت کے نام پر قتل ہوئی جس کا مکمل پتہ تو تفتیش کے بعد چلے گا ، قندیل بے غیرت ۔۔۔۔۔۔ تو تم کون سے غیرت مند ہو، اگر وہ بھٹک گئی تھی غلط تھی تو کتنے نام نہاد مولانا ، مفتی ، عامل اور پیروں جو شوہروں ، بیویوں اور سسرالیوں کو راہ راست پر لانے کا کام کرتے ہیں انہوں نے کیوں نہ اخلاقی جرات کی ، ایک مفتی عبدالقوی پر قندیل نے الزام تراشی کی تھی۔
Reforming Society
باقیوں کو کیا موت پڑی تھا ، جو منبر رسولػ پر بیٹھ کر اسلام کے ٹھیکیدار بنتے ہیں، میری سوچ اور علم ناقص ہوسکتا ہے ، لیکن میرا جیسا سادہ آدمی بھی یہ جانتا ہے کہ برائی کو کبھی برائی سے ختم نہیں کیا جا سکتا ، معاشرے کی اصلاح کیلئے ہر انسان کو کردار ادا کرنا چاہئے، مجھے بتائیں وہ نام نہاد غیرت مند جو معاشرے میں قندیل بلوچ جیسے کرداروں کو پروموٹ کرتے ہیں، ان کے جسم سے لے کر ہر طرح کے مفاد حاصل کرتے ہیں ، اس وقت ان کی غیرت گھاس چرنے جاتی ہے ، یا آنکھوں کے سامنے جنسی لذت کی پٹی بندھ جاتی ہے۔
جو ایک لمحے کیلئے اپنی ماں ، بہن ، بیٹی کو بھول جاتے ہیں ، قندیل بد کردار تھی تو تم بھی تو اعلیٰ اوصاف کے مالک نہیں ، کسی پر انگلی اٹھانے سے پہلے یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ چار انگلیوں آپ کی طرف ہوتی ہے، ہم خود ہی قندیل جیسے کردار پیدا کرتے ہیں انہیں گناہوں کی جنم میں دھکیل دیتے ہیں ، پھر خود عزت دار بن کر ایسے کرداروں کو ا س قدر گندا بنا کر پیش کرتے ہیں کہ ہر کوئی انہیں قتل کرکے جنت کے دعویدار بننا چاہتا ہے ، ہے کوئی عدالت کوئی قانون کوئی فرد جو ایسے کردار بنانے والو ں سے پوچھے، نہیں ۔۔۔ کبھی نہیں ہم غیرت مند ہے اور اسی طرح غیرت کے نام پر قتل کرتے رہے لگے ، کبھی بھی ایسی قندیلیں مثبت کردار کیلئے استعمال نہیں کریں گے۔ غیرت مند جو ٹھہرے۔