تحریر : چوہدری ذوالقرنین ہندل۔ گوجرانوالہ افسوس سب سے بڑی طاقت عوام ہے مگر ہم عوام ہیں یا بھیڑ بکریاں؟کوئی نہیں جانتا۔ گزشتہ جمعہ کی شب ترکی ساری رات فوجی بغاوت کی وجہ سے متشدد کاروائیوں کا شکار رہا۔ترکی فوج کے ایک مخصوص گروہ نے حکومتی تختہ الٹنے کی کوشش کی۔ ترکی کی بہادر عوام اپنے صدر طیب اردوان کے کہنے پر گھروں سے باہر نکل آئی اور باغیوں کے راستے کی رکاوٹ بننا شروع کر دیا۔ترک عوام نے اپنی حکومت اور اپنے صدر رجب طیب اردوان کے خلاف فوجی بغاوت کے سامنے سینہ سپر ہو کر قومی شعور اور ملکی آئین اور جمہوری عمل کے ساتھ وابستگی کا مظاہرہ کیا۔ترکی گزشتہ 1960۔1971۔اور1980 میں بھی فوجی انقلاب کا شکار رہا مگر چوتھی دفعہ عوام نے فوج کو مسترد کر دیا۔1932 سے جدید ترکی کا آغاز ہوا مگر ترقی میں ہر حکومت کے ساتھ بدلائو آتا گیا۔مگر گزشتہ پندرہ سالوں سے ترکی دنیا کی نظر میں اپنا لوہا منوانے میں کامیاب رہا۔جس میں رجب طیب اردوان اور اسکی حکومت کے اقدامات قابل قدر ہیں۔
طیب رجب اردوان تین دفعہ وزیر اعظم منتخب ہوئے اور اب صدر کے عہدے پر فائز ہیں۔یہ شخص شروع ہی سے دین اسلام کی طرف مائل تھا سب س پہلے استنبول کا میئر منتخب ہو کر عوام کی خدمت کی اور استنبول کو ایک بہتر شہر کے تور پر نمودار کیا۔عوام کا بھروسا اور یقین اردوان کے لئے اور بڑھا اور اگلی بار اسے وزیر اعظم منتخب کردیا یہ سب عوامی طاقت کی بدولت ہوا۔اس بہادر لیڈر نے عالمی سطح تک خود کو متعارف کروایا۔پوری دنیا میں مسلمانوں کی مدد کو پہنچا اور دنیا کے ساتھ اپنے وطن میں بھی مخالفین کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور عوامی دلوں پر چھایا رہا۔جی قارئین کہتے ہیں سب سے بڑی طاقت عوام ہے! آپ نے گزشتہ کئی ایسے واقعات بھی دیکھے ہونگے کہ جب عوام یکجا ہو جائے تو پھر صرف اور صرف عوام کا ہی لوہا مانا جاتا ہے۔عوام میں بڑی طاقت ہوتی ہے کیونکہ عوام جب اکٹھی ہوتی ہے تو پورے دل و جان سے اکٹھی ہوتی ہے۔گزشتہ رات ترکی کو مارشل لاء سے بچانے والی عوام ہے۔
اردوان کے مخالفین نے عوام کو اردوان کے خلاف کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے اور بلا آخر فوجی بغاوت کے زریعے حکومت کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر عوام نے اس بغاوت کو یکساں مسترد کر دیا اور اپنے لیڈر کی آواز پر لبیک کہا۔ اردوان کی عوام میں مقبولیت صرف اور صرف اس کے حقیقی لیڈر ہونے کی وجہ سے ہے نہ کبھی اردوان پر کرپشن کا کوئی کیس ثابت ہوا نہ کبھی کسی بدعنوانی میں نام آیا۔اور سب سے بڑی بات وہ عوامی نمائندہ ہے اردوان اور اسکی حکومت عوامی سطح تک تعلقات استوار کئے ہوئے ہے۔بلدیاتی ادارے بہت مضبوط ہیں۔لیڈرشپ براہ راست عوام سے منسلک ہے تبھی تو عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اپنے صدر کے کہنے پر بغاوت کو کچل گیا۔وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ترک صدر کو اپناہم منصب سمجھتے ہیں۔مگر میرے خیال سے ان دونوں میں بہت سی چیزیں مختلف ہیں۔
Nawaz Sharif
میاں محمد نواز شریف عوام میں اپنی مقبولیت کھو چکے ہیںمگر اردوان کی مقبولیت کا اندازہ آپکو ہو چکا ہے۔ہمارے ہاں عوام اور حکمران جمہوریت کے بڑے بڑے راگ الاپتے ہیں۔مگر حقیقت اس کے برعکس اور تکلیف دہ ہے۔میرے خیال میں پاکستان میں حقیقی معنوں میں ابھی تک کوئی جمہوری پارٹی نمودار نہیں ہوئی۔سب کے سب جمہوریت کی ایک اپنی ہی تعریف بنائے ہوئے ہیں۔اور اس میں موقعے کی مناسبت سے تبدیلیاں کرتے ہیں۔
بلا شبہ گزشتہ شب ترک عوام اور حکومت کے لئے ایک کڑا امتحان تھا مگر ان کے حوصلے پست نہیں نہ ہی کسی کے دل میں باغیوں کے لئے کوئی سافٹ کارنر موجود تھا نہ ہی کوئی باغیوں کی حمایت میں نکلا کیونکہ ان کے دل صاف تھے کسی کے دل میں ذاتی مفاد اور کھوٹ موجود نہیں تھی وہ لوگ ون یونٹ تھے۔ اور ملکی مفاد کی خاطر گھروں سے باہر نکلے۔ادھر پاکستان میں سارے کا سارا آوا ہی بگھڑا ہے۔ہر پارٹی کا اپنا مفاد ہے اپنے ذاتی مفادات کے لئے قوم کو توڑتے ہیں کبھی وطن کی عوام کو ون یونٹ نہیں رہنے دیا۔
Turkish Army Rebellion
عوام کو اسٹیبلشمنٹ بیروکریسی سیاسی پارٹیوں عدلیہ دوسرے اداروں کا اور اپنا باخوبی علم ہے کہ ملک کی بقاء کے لئے کسی نے کیا کردار ادا کیا ہے۔اگر کسی کو اپنی وطن کے ساتھ بے وفائی پر شک ہے تو ذرا خود کو پرکھو اور دیکھو کے ہمارے اندر اور ترکی کے عوام کے اندر کیا فرق ہے۔کیوں ہماری عوام ون یونٹ نہیں ہوتی؟ کیونکہ ہمارے ہاں اردوان جیسے لیڈر موجود نہیں؟۔کیوں ہم بار بار کرپٹ لوگوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں؟۔کیوں ہماری افواج اپنے کام سے ہٹ کر سیاست میں دخل اندازی کرتی ہے؟۔کیوں ہماری عدلیہ انصاف کے علاوہ باقی سب کاموں میں ماہر؟ کیوں ہمارے وزیر نا اہل؟ کیوں ہماری اپوزیشن جماعتیں اپنے مفادات کی خاطر کسی بھی حد کو جانے کو تیار ہیں چاہے ملکی نقصان ہی کیوں نہ ہو؟ ۔کیوں ہم سب صرف اپنے مفادات کا سوچتے ہیں اور دوسروں کے مفادات کو کچلنے کی کوشش کرتے ہیں؟۔کیوں ہمارے اندر ہٹ دھرمی آچکی ہے؟۔کیا ہم مسلمان ہیں؟۔
کیا ہم عوام ہیں یا بھیڑ بکریاں؟۔کیوں ہم باتوں میں تو دنیا فتح کرلیتے ہیں مگر حقیقت میں ناہل ہیں ؟کیوں آخر کیوں؟ ۔ذرا سوچئے۔ترکی پر جو گزشتہ شب قیامت ٹوٹی اس سے با خوبی نمٹنے کے لئے ترک عوام کی عظمت کو سلام بلا شبہ دنیا کی تاریخ کا یہ بہت بڑا واقع ہے ترکیوں نے ثابت کر دیا کہ انہیں اپنے اچھے برے کی تمیز ہے انہوں نے اپنے لئے اچھے لیڈروں کو چنا۔ انہوں نے بیرونی سازشوں کو بے نقاب کیا اور مسترد کیا۔ترک عوام ہماری عوام کے لئے مشعل راہ ہے۔ کچھ سیکھئے۔سیاستدانوں سے گزارش ہے کہ عوام کو سمجھیں عوام کو پرکھیں اور عوامی فلاح و بہبود کے لئے کام کریں اگر عوام آپ کے ساتھ ہے تو سمجھ لو تم بڑے مضبوط ہو کیوں کہ عوام سب سے بڑی طاقت ہے۔