اسلام آباد (جیوڈیسک) سینیئر تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری رضوی نے گفتگو میں کہا کہ کانگریس کے ارکان جو بیان دیتے ہیں ضروری نہیں کہ وہ امریکی ریاست کی پالیسی کی بھی عکاسی کرتے ہوں۔
پاکستان کے ایوان بالا “سینیٹ” کے چیئرمین رضا ربانی نے بعض امریکی قانون سازوں کی طرف سے پاکستان سے متعلق دیے گئے بیانات پر وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سے کہا ہے کہ وہ اس بارے میں حکومت کی پالیسی سے ایوان کو آگاہ کریں۔
چیئرمین سینیٹ نے ایک خط کے ذریعے مشیر خارجہ سرتاج عزیز سے کہا ہے “امریکی قانون سازوں کی طرف سے سخت بیانات معمول بنتے جا رہے ہیں اور پاکستان کی پارلیمان ان کے بقول ملک کی سالمیت اور قومی سلامتی سے متعلق بیانات پر خاموش کھڑی نہیں رہ سکتی۔
حالیہ دونوں میں امریکی کانگریس کے پینل میں ہونے والی سماعت میں یہ بیانات سامنے آئے تھے کہ پاکستان اگر مبینہ طور پر اپنی سرزمین استعمال کرنے والے افغان طالبان کے خلاف کارروائی نہیں کرتا تو اس کے لیے ہر قسم کی امریکی امداد بند کر دی جائے۔
پاکستان کے لیے اتحادی اعانتی فنڈ کو بھی خاص طور پر شدت پسند گروپ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائیوں کی یقین دہانی سے مشروط کرنے کا کہا جا چکا ہے۔ اسلام آباد کا اصرار ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جاری اپنی کارروائیوں میں تمام دہشت گردوں کو بلا تفریق نشانہ بنا رہا ہے۔
رواں سال ہی امریکی کانگریس کے بعض ارکان کی اعتراضات کے بعد امریکہ نے ایف سولہ لڑاکا طیاروں کی پاکستان کو فروخت کے لیے دیا جانے والے زر اعانت روک دیا تھا جس کے بعد ان طیاروں کی امریکہ سے خریداری پاکستان کے لیے مشکل ہو چکی ہے۔
گو کہ حکومتی عہدیدار یہ کہتے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں حالیہ مہینوں میں کچھ تناؤ ضرور آیا ہے لیکن اس کے باوجود دونوں ملکوں کے مابین کثیرالجہت تعلقات میں پیش رفت کے لیے بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔
امریکہ کا بھی کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے اور انسداد دہشت گردی سمیت مختلف شعبوں میں اس کے ساتھ مل کر کام کرنے کے اپنے عزم پر قائم ہے۔
سینیئر تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ بیان بازیاں باہمی تعلقات میں بہتری کی بجائے کشیدگی میں اضافے کا باعث بنتی ہیں اور حکومت کو چاہیے کہ حقیقت پسندانہ رویہ اپناتے ہوئے پالیسی بنائے اور اس کا دفاع کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ کانگریس کے ارکان جو بیان دیتے ہیں ضروری نہیں کہ وہ امریکی ریاست کی پالیسی کی بھی عکاسی کرتے ہوں۔
“لیکن دونوں ملکوں کے تعلقات پر ایسے بحث و مباحثے کا منفی اثر پڑتا ہے کیونکہ جب اس سے باتیں نکلتی ہیں پروپیگنڈہ ہوتا ہے تو ظاہر ہے جواباً ردعمل میں پاکستان میں ہو گا اور پاکستان کے سرکاری و غیر سرکاری حلقے اس بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو یہ کوئی اچھی پیش رفت نہیں۔”
رواں ماہ ہی امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سربراہ جان مکین نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور ملک کی عسکری قیادت اور حکومتی عہدیداروں سے ملاقاتیں کی تھیں۔
مبصرین کے بقول ایسے رابطے دو طرفہ تعلقات میں غلط فہمیوں کو دور کر کے کشیدگی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور اس طرح کے وفود کے تبادلوں کے سلسلے کو بڑھایا جانا چاہیئے۔