فرانس (جیوڈیسک) ابتدائی تفتیش سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ حملہ آور نے کبھی خود کو کسی بنیاد پرست نظریے کا پیروکار ظاہر نہیں کیا تھا۔
فرانس کے معروف سیاحتی شہر نیس میں ہونے والے مہلک ٹرک حملے کے بعد ملک میں قومی سوگ منایا جا رہا ہے جب کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس حملے کے متاثرین کو خراج عقیدت اور اظہار یکجہتی کے لیے جائے وقوع پر پھول چڑھانے آ رہی ہے۔
جمعرات کو قومی دن کے موقع پر ہونے والے آتشبازی کے مظاہرے کے دوران حملہ آور نے لوگوں کو اپنے ٹرک تلے روندنا شروع کیا اور اس سے قبل کہ پولیس اسے گولی مار کر ہلاک کرتی وہ 84 افراد کو موت کے گھاٹ اتار چکا تھا۔ زخمی کی تعداد 200 سے زائد بتائی جاتی ہے۔
نیس کے ایک مقامی رہائشی اور ٹینس کے کوچ جورجیو جیکے بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو حملے میں مرنے والوں کی یاد میں عارضی طور پر بنائی گئی دو کلومیٹر طویل یادگاری پٹی پر موجود ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ “ہم نے سوچا کہ شاید ہم یہاں آکر بہتر طور پر سمجھ سکیں کہ یہاں کیا ہوا تھا، لیکن اب بھی ہم نہیں سمجھ پا رہے کہ یہ کیوں ہوا۔ یہاں بہت سے بچے بھی تھے۔”
جیکے کے ہمراہ ان کی اہلیہ کارلا بھی تھیں جنہوں نے اپنے سات ماہ کے بچے کو اٹھایا ہوا تھا۔ انھوں نے انتہائی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ” مجھے یہاں موجود بچوں کے لیے بہت دکھ محسوس ہو رہا ہے۔”
مرنے والے 84 افراد میں دس بچے بھی شامل تھے جب کہ بیس زخمیوں کی حالت اب بھی تشویشناک بتائی جاتی ہے جس کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
حملہ آور کو پولیس نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا اور اس کی شناخت 31 سالہ محمد بوہلال کے نام سے ہوئی جو تیونس نژاد تھا اور نیس میں ہی کئی عرصے سے قانونی طور پر رہ رہا تھا۔
شدت پسند گروپ داعش نے حملہ آور کو اپنا “سپاہی” قرار دیتے ہوئے حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے لیکن حکام کے بقول تاحال یہ معلوم نہیں کیا جا سکا ہے کہ آیا بوہلال کا داعش سے براہ راست کوئی تعلق تھا یا یہ اس کا انفرادی فعل تھا۔
اب تک کی تحقیقات اور بوہلال کے جاننے والوں میں سے حراست میں لیے گئے پانچ افراد سے کی گئی ابتدائی تفتیش سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ حملہ آور نے کبھی خود کو کسی بنیاد پرست نظریے کا پیروکار ظاہر نہیں کیا تھا۔