ممبئی (جیوڈیسک) ’اڑتا پنجاب‘ اس وقت بالی وڈ کی اس سال سب سے زیادہ کمائی کرنے والے آٹھویں فلم ہے۔ لیکن ایک ماہ قبل اس فلم کے بنانے والے اس بات پر فکر مند تھے کہ سنسر شپ کے باعث یہ ریلیز بھی ہو گی یا نہیں۔ بی بی سی ایشین نیٹ ورک کے ہارون رشید نے اس فلم کے اداکاروں سے انڈیا میں تخلیقی سنسر شپ کے موضوع پر بات کی۔
انڈیا میں سنسر کے مرکزی ادارے نے فلم ’اڑتا پنجاب‘ سے کہا کہ وہ 94 مقامات پر کٹ لگائے جن میں توہین آمیز الفاظ، پنجاب کے شہروں کا حوالہ اور ایسے مناظر تھے جن میں منشیات کا استعمال کرنے والے افراد کی منظر کشی کی گئی تھی۔
لیکن انوراگ کشپ اور دیگر پروڈیوسرز نے اس فیصلے کو ممبئی کی عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد فلم کو صرف ایک کٹ کے بعد ریلیز کرنے کا فیصلہ سنایا گیا۔ اور یہ سین تھا جس میں فلم کا مرکزی کردار ادا کرنے والے شاہد کپور کو مجمع میں پیشاب کرتے دکھایا گیا تھا۔
شاہد کپور نے بی بی سے سے بات کرتے ہوئے کہا ’میں تسلیم کرتا ہوں کے اس فلم کو لانا آسان کام نہیں تھا لیکن مجھے اس قدر تنازعے کا احساس نہیں تھا جس سے ہم گزرے ہیں۔‘
لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس تنازعے نے فلم کی مدد بھی کی کیونکہ کئی انڈینز نے سوشل میڈیا پر اس فلم کی حمایت کی۔
ان کا کہنا تھا ’یہ فلم ریلیز سے دو دن پہلے لیک کر دی گئی لیکن پھر بھی لوگ تھیٹرز میں جا کر اسے دیکھ رہے ہیں جو حیران کن ہے۔‘
اس تنازع نے انڈیا میں یونیورسٹی کے پروفیسرز کو بھی زد میں لیا۔
بعض کاروبار سکھانے والے ادارے ’اڑتا پنجاب‘ کو مثال کے طور پر پیش کر رہے کہ کس طرح عوامی حمایت ایک فلم میں دلچسپی پیدا کر دیتی ہے اور ایک سماجی مسئلے کے بارے میں آگہی پیدا کر سکتی ہے۔
کیا محض ایک فلم کی کامیابی مستقبل میں سنسر شپ کی کڑی گرفت سے بچنے کے لیے کافی ہے؟ اداکارہ عالیہ بھٹ کہتی ہیں ابھی اس کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ مکمل تخلیقی آزادی کو یقینی بنایا جائے۔
ان کا کہنا تھا ’فلم سازی سے متعلق 1952 کے قانون نے سارا مسئلہ پیدا کیا ہے کیونکہ یہ مبہم ہے اور اس کا کوئی بھی مطلب نکالا جا سکتا ہے۔‘
ان کا مطالبہ تھا کہ یہ قانون بدلا جانا چاہیے۔
کئی افراد کو عدالت کی جانب سے لگائے گئے اس واحد کٹ پر بھی اعتراض ہے۔ دورِ حاضر کے نمایاں نوجوان ادارکاروں میں عالیہ بھٹ سنسر شپ کا مکمل خاتمہ چاہتی ہیں۔
ان کا موقف ہے ’ایک بالغ کی حیثیت سے آپ کو ووٹ دینے کی اجازت ہے، آپ کو شادی کرنے کی اجازت ہے ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ کو برے اور توہینِ آمیز الفاظ سننے، بوسے والے مناظر یا خون خرابہ دیکھنے کی اجازت نہ دی جائے؟
شعلے جیسی فلم کی شریک مصنف جاوید اختر کا کہنا ہے کہ ’اڑتا پنجاب‘ کوئی ایک معاملہ نہیں ہے۔ انڈیا میں سنسر شپ ہمیشہ سے غیر منطقی اور ڈانواں ڈول رہی ہے۔
گذشتہ برس سنسر بورڈ نے ہندی تھرلر ’این ایچ 10 ‘کے پروڈیوسر کو کہا تھا کہ وہ غیرت کے نام پر قتل کے ایک منظر کو چھوٹا کریں اور ایک مزاحیہ فلم ’دم لگا ہیشا‘ سے لفظ لیزبیئن کو حذف کرنے کو کہا گیا جبکہ ’ففٹی شیڈز آف گرے ‘ کے مناظر کاٹنے کی پیشکش کے باوجود اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔
اس کے علاوہ ڈینیئل کریگ کی سپیکٹر سے بوس و کنار کے مناظر کاٹنے کے بعد اسے بالغوں کے لیے کا سرٹیفیکیٹ دیا گیا۔
جاوید اختر کا کہنا ہے کہ سنسر بورڈ میں نئے لوگوں کی ضرورت ہے تاکہ اس طرح کے واقعات سے بچا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا ’جو لوگ فن کے شعبے سے وابستہ ہوں ، وہ لوگ جو تھیٹر سے ہوں، جو ادب اور ڈرامے سے آگاہ ہوں انھیں اس بورڈ میں شامل ہونا چاہیے۔‘
’اڑتا پنجاب‘ کی کامیاب عدالتی جنگ نے دوسروں کی بھی حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ اپنی تخلیقی آزادی کے لیے لڑیں۔
اداکار اور پروڈیوسر انیل کپور نے امریکی مزاحیہ ڈرامہ ماڈرن فیملی کے حقوق حاصل کیے ہیں تاکہ اسے انڈیا میں ناظرین کے لیے پیش کیا جا سکے۔ بعض لوگوں نے اسے رسک قرار دیا ہے کیونکہ اس ڈرامے میں ایک ہم جنس پرست جوڑا بھی ہے اور ملک میں یہ ابھی غیر قانونی ہے۔
انیل کپور نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ کرداروں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
ان کا کہنا تھا ’چیزیں بدل رہی ہیں، مجھ پر کوئی دباؤ نہیں ہے میں کہانی کو ہو بہو لوں گا۔‘
اداکاروں کا کہنا ہے کہ انھیں انڈیا کہ قانون نظام پر پورا بھروسہ ہے۔
انیل کپور کا مزید کہنا تھا ’ آج ہمارے پاس سوشل میڈیا کی صورت میں ایک بڑے فائدے کی چیز ہے اور دنیا بھر میں عوامی رائے کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اس لیے اگر کوئی ایسی بات ہوئی تو میں بھی لڑنے کے لیے تیار ہوں۔‘
لیکن ’اخلاقی اصول‘ بھی دنیا میں بہت معنی رکھتے ہیں۔ فروری 2015 میں ایک کامیڈی گروہ اے آئی بی کو اپنا شو نازیبا الفاظ کے استعمال پر شکایات کے باعث یو ٹیوب سے ہٹانا پڑا جس میں بالی وڈ سٹار بھی تھے۔
لیکن کیا سنسر بورڈ کے خلاف آن لائن مہم چلانا صحیح ہے یا یہ اصل مسئلے کو یکسر نظر انداز کرنا ہے۔
بالی وڈ کے فلم سازوں کے موضوعات کے معاملے میں پہلے سے زیادہ بہادر اور بے باک ہونے کے سبب سنسرشپ کے ساتھ جاری لڑائی جلد ختم ہونے والی نہیں ہے۔