استنبول (جیوڈیسک) ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ منتخب حکومت پر شب خون مارنے والے باغیوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے پارلیمنٹ سزائے موت کا قانون منظور کرتی ہے تو وہ اس پر دستخط کرنے میں تاخیر نہیں کریں گے۔
امریکی ٹیلی ویژن نیٹ ورک ’سی این این‘ کے مطابق ترک صدر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ “باغیوں کی سزاء کا فیصلہ پارلیمنٹ پر چھوڑا گیا ہے۔ اگر پارلیمنٹ باغیوں کو سزائے موت دینے کی منظوری دیتی ہے تو حکومت اس فیصلے کو نافذ کرے گی۔ وہ پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد سزائے موت کے قانون پر دستخط کرتے ہوئے اسے نافذ العمل کریں گے۔”
خیال رہے کہ ترکی میں سنہ 2004ء میں سزائے موت کا قانون اس وقت منسوخ کردیا گیا تھا جب ترکی یورپی یونین میں شمولیت کے لیے کوشاں تھا۔ حال ہی میں فوج کے ایک منحرف ٹولے کی جانب سے منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش ناکام بنائے جانے کے بعد باغیوں کو سزائے موت دینے کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے۔ ناکام فوجی بغاوت کی سازش کے دوران ہنگاموں میں 200 سے زاید افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔
امریکی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے صدر ایردوآن نے کہا کہ سزائے موت کی منظوری کے لیے پارلیمنٹ سے فیصلہ آنے کے بعد صدر مملکت کی حیثیت سے میں اس کی منظوری دینے میں تاخیر نہیں کروں گا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت وقت کے خلاف بغاوت کی سازش کرنے والوں کو عوام سزائے موت دینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
صدر ایردوآن کا کہنا تھا کہ سڑکوں پر احتجاج کرنے والے لاکھوں عوام بغاوت کے مرتک عناصر کو دہشت گرد قرار دے کران کی پھانسی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ لوگ بجا طور پر یہ سوال پوچھتے ہیں کہ ہم باغیوں کو جیلوں میں ڈال کر کئی سال تک ان کی خدمت کیوں کریں اور انہیں کیوں کھلائیں پلائیں۔
ایک سوال کے جواب میں ترک صدر نے کہا کہ وہ جلد ہی باضابطہ طور پر امریکا سے فتح اللہ گولن کی حوالگی کا مطالبہ کریں گے۔
خیال رہے کہ ترکی کے مذہبی رہ نما اور امریکا میں جلا وطن لیڈر فتح اللہ گولن پر ترکی میں حکومت کے خلاف بغاوت کی سازش کا الزام عاید کیا گیا ہے تاہم گولن ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔