تحریر : عماد ظفر عام انتخابات کسی بھی سیاسی جماعت کی عوامی مقبولیت کو جانچنے کا سب سے بڑا اور باوثوق پیمانہ ہوا کرتے ہیں. آج کل آزاد جموں و کشمیر میں عام انتخابات کا میلہ سجنے والا ہے.21 جولائی کو آزاد کشمیر میں بسنے والے اپنی اسمبلی کی 41 نشستوں پر اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے.ان نشستوں میں سے 29 نشستیں آزاد کشمیر میں ہیں جبکہ 12نشستیں پاکستان میں ہیں جہاں کشمیری اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں.اگر تاریخی طور پر دیکھا جائے تو عموما آزاد کشمیر میں حکومت وہی جماعت بناتی ہے جس کی مرکز یعنی پاکستان میں حکومت ہوتی ہے.لیکن اس دفعہ صورتحال دلچسپ بھی ہے اور تھوڑی سی مختلف بھی. پاکستان میں مرکزی حکومت نون لیگ کی ہے اور نون لیگ آزاد کشمیر میں تنظیم سازی کر چکی ہے ماضی میں مسلم کانفرنس کو نون لیگ کا حصہ سمجھا جاتا تھا لیکن گزشتہ انتخابات سے نون لیگ خود کشمیر کے انتخابات میں حصہ لے رہی ہے اور کشمیر میں نون لیگ کے قائد راجہ فاروق حیدر ہیں.دوسری جانب تحریک انصاف کے قائد عمران خان اور پیپلز پارٹی کے قائد بلاول بھٹو کشمیر میں متعدد انتخابی جلسے کر چکے ہیں۔
کئی نشستوں پر پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا اتحاد ہے. ادھر مسلم لیگ کی اعلی قیادت میں سے کسی نے بھی آزاد کشمیر کی انتخابی مہم میں حصہ نہیں لیا. یعنی آزاد کشمیر کا انتخابی دنگل ایک طرح سے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے اتحاد اور مسلم لیگ نون کی بی ٹیم کے درمیان لڑا جائے گا. عمران خان جو نواز شریف کے غیر مقبول ہونے کے دعوے کرتے نہیں تھکتے اور بلاول بھٹو جو نواز شریف کو مودی کا یار اور غدار قرار دیتے ہیں ان دونوں رہنماوں اور جماعتوں کیلئے یہ نہ صرف سیاسی ساکھ بلکہ ان کے سیاسی مستقبل کا بھی سوال ہے.اگر تو آزاد کشمیر کے عام انتخابات پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف مل کر بھی نہیں جیت سکتے تو پھر یہ کہنا بجا ہو گا کہ پنجاب کا آئیندہ انتخابی دنگل ان دونوں جماعتوں کیلئے جیتنا ناممکن ہو گا۔
اگر پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف آزاد کشمیر کا انتخابی میدان اپنے نام کر لیں تو یہ نون لیگ کے لیئے ایک بہت بڑا سیاسی دھچکہ ہو گا جس کے اثرات سے بچ نکلنا نون لیگ کیلئے ناممکن ہو جائے گا اور پاکستان میں بھی مرکزی سطح پر نون لیگ کمزور ہو جائے گی.یعنی آزاد کشمیر کے انتخابات پیپلز پارٹی اور بالخصوص تحریک انصاف کیلئے ایک نادر ترین موقع ہے نون لیگ کو بیک فٹ پر دھکیلنے کا. لیکن کیا یہ اتنا ہی آسان ہے؟ آزاد کشمیر میں جو نشستیں ہیں اگر ان ہر نگاہ دوڑائی جائے تو دارلحکومت مظفرآباد میں سب سے زیادہ 6نشستیں ہیں. یہاں سے نون لیگ کشمیر کے قائد راجہ فاروق حیدر بھی انتخابات میں حصہ کے رہے ہیں.مظفرآباد میں ان 6نشستوں پر کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے اور دارلحکومت ہونے کے ناطے سے مظفرآباد کی ان 6 نشستوں کی بہت اہمیت ہے. پونچھ ضلع سے اسمبلی کی 5نشستیں ہیں۔
Azad Kashmir Election
مظفرآباد اور ضلع پونچھ کی نشستیں ملا کر 11نشستیں بنتی ہیں اور ان نشستوں میں سے 7 کے قریب نشستوں پر نون لیگ کامیابی کی توقعات لیئے بیٹھی ہے.اگر پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ان نشستوں پر کوئی اپ سیٹ کر سکیں تو نون لیگ کیلئے کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات جیتنا تقریبا ناممکن ہو جائے گا. ضلع کوٹلی میں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کی 5نشستیں ہیں. روایتی طور پر کوٹلی کا پلڑا پیپلز پارٹی کی جانب رہتا ہے لیکن سکندر حیات خان جو کہ مسلم کانفرنس کے سابق مرکزی رہنما رہ چکے ہیں ان کی نون لیگ میں شمولیت کے باعث ضلع کوٹلی میں ایک سخت انتخابی معرکے کی توقع کی جا رہی ہے.سکندر حیات خان کے صاحبزادے فاروق سکندر خان کوٹلی کی نشست سے نون لیگ کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
میرپور میں قانون ساز اسمبلی کی چار نشستیں ہیں اور کشمیر کی سیاست کے ہیوی ویٹ ان نشستوں پر مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں. موجودہ وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید بھی میرپور سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔جبکہ بیرسٹر سلطان پیپلز پارٹی اور نون لیگ میں مزے اڑانے کے بعد اب تحریک انصاف کے ٹکٹ سے میر پور سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں.میرپور کی زیادہ تر شہری اور شہر سے ملحقہ مقامی آبادی کے قریب ہر گھر میں سے کوئی نہ کوئی انگلستان میں موجود ہے۔
یہاں کی نشستوں پر اگر تحریک انصاف قبضہ نہ جمانے پائی تو پھر کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں تحریک انصاف کو نشستوں کے ایک معمولی تعداد کے ساتھ گزارا کرنا پڑے گی.ضلع باغ میں تین نشستیں ہیں. پیپلز پارٹی بھی یہاں مضبوط ہے لیکن باغ کی ایک نشست سے مسلم کانفرنس کے سربراہ سابق وزیراعظم سردار عتیق خان کے انتخابات میں حصہ لینے کی وجہ سے باغ بھی الیکشن میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے.یاد رہے کہ آزاد کشمیر کے چند شہری علاقوں کو چھوڑ کر ووٹ برادری اور ذات پات کی بنا پر دہا جاتا ہے یعنی برادریوں کے ساتھ انتخابی گٹھ جوڑ کرنا پڑتا ہے۔
PTI and PPP
تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی مل کر مسلم لیگ کی انتخابی حلقوں میں گٹھ جوڑ کی سیاست کو کہاں تک شکست دینے پاتی ہیں اس کا نتیجہ 21 جولائی کو سامنے آ جائے گا. دوسری جانب آزاد کشمیر اسمبلی کی 12 نشستیں ایسی ہیں جو پاکستان میں ہیں .ان میں سے 9 نشستیں پنجاب میں ہیں. ان نشستوں پر نون لیگ کی کامیابی کے واضح امکانات ہیں. اگر پنجاب کی 9 میں سے 7نشستیں مسلم لیگ نون حاصل کر لے تو آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں اس جماعت کو باآسانی سادہ اکثریت حاصل ہو جائے گی اور یوں آزاد کشمیر میں مسلم لیگ نون پہلی دفعہ اپنا وزیر اعظم لانے میں کامیاب ہو جائے گی. پیپلز پارٹی ان نشستوں پر صرف راولپنڈی ڈویژن کی سیٹوں پر کڑا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہے جبکہ تحریک انصاف اگر کوئی نشست حاصل کرنے پائی تو یہ ایک اپ سیٹ ہو گا۔
آزاد کشمیر کی قانون اسمبلی کی 41نشستوں کیلئے پیپلز پارٹی نے 39 مسلم لیگ نون نے 38 اور تحریک انصاف نے 34امیدوار کھڑے کیئے ہیں.جبکہ مسلم کانفرنس نے 26نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیئے ہیں. آزاد امیدواروں کی بھی بھاری تعداد انتخابات میں حصہ لے رہی ہے. اگر انتخابی حلقوں اور امیدواروں کو دیکھا جائے تو یہ کہنا بجا ہو گا کہ آزاد کشمیر میں اصل انتخابی دنگل مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہو گا۔
کشمیر کی عوام کے مزاج اور علاقائی سیاست کے گٹھ جوڑ کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ نون 41نشستوں میں سے 22 کے قریب نشستیں جیت کر آزاد کشمیر میں بھی اپنی حکومت بنا لے گی.لیکن یہ صرف ایک اندازہ اور تجزیہ ہے اصل فیصلہ اور نتیجہ 21 جولائی کی شب کو ہی آئے گا۔