فلپائن (جیو ڈیسک) یاسے کا کہنا ہے کہ انہوں نے وانگ کو بتایا کہ یہ پیشکش ” ہمارے آئین اور ہمارے قومی مفاد سے مطابقت نہیں رکھتی ہے”۔ فلپائن کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ان کی حکومت نے جنوبی بحیرہ چین کے متنازع علاقوں سے متعلق چین کی مذاکرات کی پیشکش کو مسترد کر دیا ہے کیونکہ ان کے بقول چین گزشتہ ہفتے بین الااقوامی عدالت کے فیصلے کو ان مذاکرات کی بنیاد تسلیم کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔
فلپائن کے نشریاتی ادارے ‘اے بی ایس۔ سی بی این’ سے منگل کو ایک انٹرویو میں پرفیکٹر یاسے نے کہا کہ یہ پیشکش ان کے چینی ہم منصب وانگ یی نے گزشتہ ہفتے کے اواخر میں منگولیا میں ایشیا اور یورپ کے رہنماؤں کے اجلاس کے موقع پر کی۔ یاسے کا کہنا ہے کہ انہوں نے وانگ کو بتایا کہ یہ پیشکش ” ہمارے آئین اور ہمارے قومی مفاد سے مطابقت نہیں رکھتی ہے”۔
چینی سفارت کار نے ردعمل میں کہا کہ اگر منیلا نے ثالثی کی مستقل عدالت کے فیصلے کی حمایت جاری رکھی تو “ہم ایک تصادم کی طرف جا سکتے ہیں۔” ثالثی کی بین الاقوامی عدالت نے گزشتہ منگل کو سنائے جانے والے اپنے تاریخی فیصلے میں تقریباً 35 لاکھ مربع کلومیٹر رقبہ پر مشتمل بحیرہ جنوبی چین پر چین کی ملکیت کے دعویے کو مسترد کر دیا تھا۔
یہ فیصلہ فلپائن کی 2013 میں دائر کی جانے والی درخواست پر سنایا گیا جس میں منیلا نے فلپائن کے ساحل سے 225 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع سکیربورو شول نامی سمندری چٹان پر چین کی جارحانہ سرگرمیاں کی شکایت کی تھی۔
چینی کوسٹ گارڈ شول کے علاقے میں کام کرنے والی فلپائن کی ماہی گیر کشتیوں کو تسلسل سے روک رہے ہیں اور اس نے عدالت کے فیصلے کے بعد بھی ایک بار ایسا ہی کیا۔ یاسے کا کہنا ہے کہ انہوں نے وانگ سے اس ناکہ بندی کو ختم کرنے کے لیے کہا ہے۔
ہیگ میں قائم عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ چین کے بحیرہ جنوبی چین کے سمندری وسائل پر ملکیت کے تاریخی دعوے اقوام متحدہ کے سمندری حدود سے متعلق معاہدے کے تحت قائم کیے گئے خصوصی اقتصادی زون سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔ بیجنگ نے عدالت کی کارروائی کا یہ کہہ کر بائیکاٹ کر رکھا تھا کہ یہ تنازع عدالت کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ چین اس فیصلے پر اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کر چکا ہے۔
چین نے بحیرہ جنوبی چین کے متنازع علاقے میں بڑے پیمانے پر مصنوعی جزیروں کی تعمیر کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اس خطے پر برونائی، ملائیشیا، ویت نام ، تائیوان اور فلپائن بھی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ بحیرہ جنوبی چین کے علاقے سے سالانہ لگ بھگ پانچ کھرب ڈالر کا تجارتی سامان گزرتا ہے اور یہاں ماہی گیری کے علاقے اور ممکنہ طور پر تیل، گیس اور دیگر قدرتی وسائل بڑی مقدار میں موجود ہیں۔