کشمیر انتخابات میں ن لیگ کو برتری، عمران خان کی مبارکباد

PML N Win

PML N Win

آزاد کشمیر (جیوڈیسک) پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں جمعرات کے روز منعقد کیے جانے والے انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن نے اب تک 40 نشستوں کے نتائج کا اعلان کیا ہے جن کے مطابق 30 نشستوں پر مسلم لیگ ن جیتی ہے، جب کہ دوسرے نمبر پر پیپلز پارٹی ہے جس نے تین حلقوں میں کامیابی حاصل کی ہے۔

اب تک کے غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق مسلم لیگ ن کو دیگر جماعتوں پر واضح برتری حاصل ہو گئی ہے اور ایسا لگ رہا ہے وہ آسانی سے حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے مسلم لیگ ن کو الیکشن جیتنے پر مبارکباد دی ہے۔

انھوں نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا: ’اگرچہ روایتی طور پر اسلام آباد میں برسرِ اقتدار جماعت ہی اے جے کے میں انتخابات جیتتی ہے، لیکن میں پھر بھی پی ایم ایل این کو جیت پر مبارکباد دینا چاہوں گا۔‘

اس کے برخلاف اس خطے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سردار جاوید ایوب نے صحافی سے بات کرتے ہوئے ان انتخابات کے نتائج کو ماننے انکار کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن نے یہ نتائج بھاری رقوم کے ذریعے حاصل کیے ہیں۔

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے الیکشن کمیشن نے اب تک 36 حلقوں کا غیر حتمی کا اعلان کیا ہے جن میں پاکستان مسلم لیگ ن 26 نشستوں کے ساتھ سرفہرست ہے۔ مسلم کانفرنس اور پیپلز پارٹی نے تین،تین اور تحریک انصاف نے دو، جب کہ جموں و کشمیر پیپلز پارٹی اور ایک آزاد امیدوار نے ایک، ایک نشست پر کامیابی حاصل کی ہے۔

مسلم لیگ ن کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونے والے تحریک انصاف کے سربراہ اور اس خطے میں سابق وزیراعظم بیرسٹر سطان محمود نے بھی اپنے مخالفین پر الیکشن کے دوران پیسوں کی تقسیم کا الزام عائد کیا ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن کے سربراہ راجہ فاروق حیدر نے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے الزامات کی سختی تردید کی ہے۔ اس خطے میں شکست سے دوچار ہونے والی جماعتوں کی عمومی روایت رہی ہے کہ انھوں نے پہلے مرحلے میں کبھی بھی نتائج تسلیم نہیں کیے۔

اس خطے میں خودمختار کشمیر کی حامی تنظیم جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (سردار صغیر) نے پہلے ہی سے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس خطے کے آئین اور قانون کی رو سے ایسی تنظیموں یا افراد پر انتخابی عملی میں شرکت کی ممانعت ہے جو انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق پر یقین نہیں رکھتیں۔

یہاں رائج انتخابی عمل پر جہاں الحاق پاکستان کی سیا سی و مذہبی جماعتیں سوال اٹھاتی رہی ہیں، وہیں خود مختار کشمیر کی حامی تنظیموں کو اس بات پر اعتراض ہے کہ انھیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے۔

پابندی کا اطلاق انتخابی عمل میں بطور امیدوار حصہ لینے پر بھی ہوتا ہے کیوں کہ کشمیر کے اس علاقے کے انتخابی قانون کے تحت کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت امیدوار کے لیے ایک ایسے حلف نامے پر دستخط کرنا ضروری ہیں جس میں اقرار کیا جاتا ہے کہ وہ نظریہ پاکستان، متنازع کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے نظریے اور پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری پر یقین رکھتا ہو۔

اسی طرح رکن اسمبلی منتخب ہونے کے بعد بھی یہ ضروری ہے کہ پاکستان سے وفاداری کے ساتھ ساتھ ریاست کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے نصب العین کی وفاداری کا بھی حلف اٹھایا جائے۔ اس خطے میں عمومی وہی جماعت حکومت بناتی ہے جسے اسلام آباد کی آشیرباد حاصل ہوتی ہے۔