واشنگٹن (جیوڈیسک) جمعرات کو داعش کے خلاف سرگرم تیس سے زائد ملکوں کے وزارئے خارجہ و دفاع سے خطاب میں کیری نے کہا کہ ” (شام و عراق میں) صورت حال تبدیل ہو گئی ہے”۔
امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ شدت پسند تنظیم داعش عراق و شام میں جنگجو اور علاقے کھو رہی ہے تاہم انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود یہ ایک ایسے خطرے میں تبدیل ہو رہی ہے جسے شکست دینا اور بھی مشکل ہو گا۔
جمعرات کو داعش کے خلاف سرگرم تیس سے زائد ملکوں کے وزارئے خارجہ و دفاع سے خطاب میں کیری نے کہا کہ ” (شام و عراق میں) صورت حال تبدیل ہو گئی ہے”۔
کیری نے مزید کہا کہ “(عراق و شام ) میں موجود ہمارے اتحادی اور شراکت داروں نے عراق کے اس پچاس فیصد علاقے سے (داعش) کو بے دخل کر دیا ہے جو ایک وقت میں اس تنظیم کے کنٹرول میں تھا جب کہ شام میں اس کے زیر کنٹرول علاقے کا بیس فیصد (داعش) سے واپس لے لیا گیا ہے”۔
امریکہ کے وزیر خارجہ نے کہا کہ دنیا اس بات کی اُمید کر سکتی ہے جب داعش کو شام و عراق سے مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا اور ان کے بقول “جب وہ دن آئے گا تو یہ داعش کے خلاف لڑائی کا ایک اہم موڑ ہو گا”۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ اب امریکی زیر قیادت اتحاد کے لیے یہ امر اطمینان بخش ہے کہ داعش کے جنگجوؤں کی تعداد گزشتہ سال کے مقابلے میں ایک تہائی کم ہو گئی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ماضی میں داعش کی طرف سے بھرتی کیے گئے غیر ملکی جنگجو اب محاذوں سے واپس آرہے ہیں کیونکہ داعش کی لیے آمدنی کے ذرائع محدود ہونے کے بعد انہیں تنخواہوں کی ادائیگی سست ہو گئی ہے اور اس وجہ سے نئے جنگجوؤں کی بھرتی کا عمل بھی اب موثر نہیں رہا ہے۔
تاہم تشویش کی ایک بات یہ ہے کہ اگر (داعش مخالف) اتحاد عراق و شام میں اپنے فوجی مقاصد حاصل بھی کر لیتا ہے پھر بھی داعش کے خلاف جنگ ختم نہیں ہو گی۔
امریکہ کے ایک غیر سرکاری تھنک ٹینک سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز سے وابستہ انتھونی کارڈزمین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ القاعدہ کی طرف سے ماضی میں کی جانے والی کارروائیوں کی نسبت یہ گروہ دہشت گردی کی ترغیب دینے پر زیادہ مائل نظر آتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ”ہم اس کو محدود کر سکتے ہیں ہم اس کے کچھ حصوں کو شکست سے دوچار کر سکتے ہیں تاہم یہ ختم ہونے والا نہیں ہے”۔ کیری نے امریکی وزارت خارجہ میں دیگر ملکوں کے نمائندوں کے اجلاس میں اس بات پر زور دیا کہ داعش کی کارروائیوں کا “مذہب، منطق، تاریخ یا قانون میں کوئی جواز نہیں ہے”۔
انہوں نے اتحاد کے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ معلومات کے تبادلے میں اضافہ کریں اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے ان انتظامی رکاوٹوں کو دور کریں جو حکام کے لیے ممکنہ دہشت گردوں کی نشاندہی کو مشکل بناتی ہیں۔