اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو کاخِ امراء کے در و دیوار ہلا دو
غریبوں کو جگانے والے سینئر سیاستدان معراج محمد خان جمعرات 21 جولائی 2016 کو کراچی میں 78 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ معراج محمد خان 20 اکتوبر 1938 ءکو فرخ آباد اترپردیش میں پیدا ہوئے تاہم ان کا خاندان بنیادی طور پر پختون تھا جو آفریدی قبیلے کی شاخ زکاخیل سے تعلق رکھتا تھا۔ والد کا نام حکیم مولوی تاج محمد خان تھا جو ہومیوپیتھک کےمعالج تھے۔ وہ چار بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے، مرحوم پی ایف یو جے کے سابق صدر اور صحافیوں کے رہنما مہناج برنا اورمعروف شاعر دکھی پریم نگری (وہاج محمدخان)کے چھوٹے بھائی تھے۔ 1957 ءمیں کراچی یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔ 1962ءمیں فلسفے میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ 4 جولائی 1963ءسے 30 نومبر 1967ءتک وہ نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر رہے۔ معراج محمد خان کے بعد ڈاکٹر رشیدحسن خان جن کا 30 اپریل 2016ء کو کراچی میں انتقال ہوا ہے نے یہ عہدہ سنبھالا۔ افسوس تین ماہ کے مختصر وقت میں یہ دوسری موت ہے جو ایک سچے انقلابی اور نظریاتی ساتھی کی ہوئی ہے۔
معراج محمد خان پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں سے ایک تھے۔ پیپلز پارٹی میں آنے سے پہلے وہ پاکستان کمیونسٹ پارٹی سے متعلق رہے۔ انہیں اپنی انقلابی جدوجہد پر حبیب جالب ایوارڈ بھی دیا گیا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اور غریب اور مزدور تحریک کے حق میں انہوں نے عمر بھر کام کیا۔ بائیں بازوکے حلقوں میں انہیں بڑی قدرکی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ معراج محمد خان نے پاکستان پیپلز پارٹی کو تشکیل دینے میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر کام کیا۔ 1969 میں معراج محمد خان ، ذوالفقار علی بھٹو کو لیکر نیوکراچی کی غریب آبادی آئے ،جس کار سے بھٹو صاحب آئے تھے اس میں بھٹو صاحب کے ساتھ انکے ڈرائیور کے علاوہ صرف معراج محمد خان تھے اور اس وقت ملک میں یحی خان کا مارشلاء لگا ہوا تھا جو بھٹو صاحب اور انکے ساتھیوں پر نظر رکھے ہوئے تھے، اس وقت کوئی سرمایہ دار یا جاگیردار بھٹو کے قریب نہیں آتا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو بہت عظیم سیاستدان تھے لیکن تاریخ میں یہ صاف لکھا ہے کہ بھٹو کو سیاست کی بلندی پر لےجانے والے ان کے معراج محمد خان جیسے ساتھی ہی تھے۔ معراج محمد خان اپنے بائیں بازوکی نظریات کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔
Pakistan Peoples Party
پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کے ساتھ ہی کراچی کے حوالے سے معراج محمد خان کا نام سامنے آیا جو بائیں بازو کے دانشور، مزدور دوست اور غریبوں کے حامی کے طور پر پہلے ہی شہرت پا چکے تھے۔سابق وزیراعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیرمین ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنے جو دو جانشین نامزدکیے تھے، مرحوم معراج محمد خان ان میں سے ایک تھے۔نظریاتی طور معراج محمد خان سوشلسٹ تھے اورسوشلسٹ ایجنڈے سے انتہائی مخلص تھے۔ بھٹو صاحب نے پاکستان پیپلز پارٹی کا منشور بائیں بازو کے پروگرام اور نعروں کے مطابق بنایا تھا جن میں سے ایک نعرہ تھا کہ ‘سوشلزم ہماری معیشت ہے’۔ وہ بائیں بازو اور ترقی پسند قوتوں کے کندھوں پر بیٹھ کر اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوئے۔ اقتدار حاصل ہونے کے صرف چھ ماہ بعد کے مختصر عرصہ میں بھٹو صاحب نے وڈیروں اور جاگیرداروں کی نمائندگی شروع کردی۔ پیپلز پارٹی جیسے جیسے اپنے ایجنڈ ے سے ہٹتی گئی معراج محمد خان سے بھٹو حکومت کے اختلافات میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ بالآخر 1973ءہی میں معراج محمد خان نے پیپلز پارٹی چھوڑدی اور اپنی سیاسی جماعت بنانے پر غور شروع کیا۔ اسی سال انہوں نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو ایک عظیم سیاسی رہنما ہیں لیکن افسوس کہ سرمایہ داروں کے گھیرے میں آ گئے ہیں اور مزدور تحریک کو وہ کچلنا چاہتے ہیں۔
معراج محمد خان غضب کے مقرر تھے، میں نے معراج محمدخان کی نے بےشمار تقریریں سنیں ہیں ان کے الفاظ میں جادو تھا۔ تقریر کے دوران ان کا پورا جسم ان کی زبان سے ادا ہونے والے ہر لفظ کا ساتھ دے رہا ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ جب وہ لاہور میں مزنگ روڈ پر مزدور کسان ہال میں خطاب کررہے تھے تو انہوں نے بھٹو صاحب کے لیے غریبوں کی والہانہ محبت اور مزدوروں کی بے انتہا عقیدت کے بعد کراچی میں ان کے جلوس پر بھٹو صاحب کے نادر شاہی حکم پر فائرنگ کا تذکرہ کیا تو شدت جذبات سے ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور جو سن رہے تھے وہ بھی رو رہے تھے۔ کراچی میں خواتین کا ایک جلوس نکل رہا تھا کہ معراج محمد خان راستے میں آ گئے۔ عورتوں نے انہیں مجبور کیا کہ ہمارے ساتھ چلو اور بھٹو شاہی کے ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرو۔ کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد پولیس نے لاٹھی چارج کیا جو اتنا وحشیانہ تھا کہ بے اندازہ خواتین زخمی ہوئیں۔ ایک لاٹھی معراج کے سر پر بھی لگی جس کی وجہ سے ان کی ایک آنکھ ضائع ہو چکی ہے۔
Mairaaj Mohammad Khan
معراج محمد خان نے اس واقعہ کے بعد بھی بیسیوں بار میں نے جلوسوں کی قیادت کی۔ صوبائی حکومت نے ان پر بے شمار مقدمات قائم کئے اور ایسے ہی ایک جھوٹے مقدمے میں انہیں ساڑھے چار سال قید بامشقت جیل میں رہنا پڑا۔ جنرل ضیاء کی حکومت نے انہیں رہا کیا اور چاہا کہ وہ بھٹو صاحب کے خلاف کچھ بولیں، بھٹو صاحب اس وقت جیل میں تھے ، معراج محمد خان کا تاریخی جواب تھا کہ ‘میں اس شخص کے خلاف کیسے بولوں جو اس وقت خود جیل میں ہے اور میری بات کا جواب نہیں دئے سکتا’، معراج محمد خان کا یہ جواب انکے کردار کا مظہر تھا۔
بعدازاں معراج محمدخان نے اپنی تنظیم قومی محاذآزادی بنائی۔ قومی محاذآزادی کو انہوں نے پاکستان تحریک انصاف میں ضم کردیا اور وہ پاکستان تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری بنے، لیکن عمران خان سے اختلافات کے بعد انہوں نے نہ صرف تحریک انصاف بلکہ عملی سیاست سے بھی کنارہ کشی اختیارکرلی تھی۔ معراج محمد خان نے اپنی زندگی کے 13 سال جیلوں میں گزارے۔ بھٹو صاحب سے بھی پہلے انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا اور ایوبی آمریت کی مخالفت کی۔ انہوں نے ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے بھی تقریریں کیں اور حکومتی ظلم و ستم کی مذمت بھی کی لیکن کبھی بھی ایم کیو ایم میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ کاش ہم مذہب کے اجارہ داروں کو خود پراتنا سوار نہ کرتے تو آج اتنی بڑی تعداد میں دہشت گرد سامنے نہ آتے۔
معراج محمد خان نے ساری زندگی اس بات پر یقین رکھاکہ پیپلز پارٹی کا منشور، 1۔ اسلام ہمارا دین ہے، 2۔ سوشلزم ہماری معیشت ہے، 3۔ جمہوریت ہماری سیاست ہے، اور 4۔ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ یہ منشور ایک متوازن معاشرہ قائم کر سکتا ہے جو عوام کے مسائل کو حل کرنے کی ضمانت فراہم کرے گا۔ یہ نعرے کل بھی سچے تھے اور آج بھی سچے ہیں۔ معراج محمد خان تو چلے گئے یقیناً کوئی دوسرا آئے گا اور اس منشور پر عمل کرئے گا، افسوس آج ہم پاکستانی ایک ایسے شخص سے محروم ہوگئے جوغریبوں کا سچا ہمدرد تھا۔ مرحوم نے ہمیشہ غریب اورکچلے ہوئے انسانوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کی۔