تحریر : شاہ بانو میر حضرت شیخ بلخی اور حضرت ابراہیم بن ادہم دونوں ہم زمانہ تھے ـ ایک بار شفیق بلخی اپنے دوست ابراہیم کے پاس آئے اور کہا ” کہ میں سفر پہ جا رہا ہوں سوچا جانے سے پہلے آپ سے ملاقات کر لوں کیونکہ اندازہ ہے کہ سفر میں کئی ماہ لگ جائیں گے ـ اِس ملاقات کے چند دن بعد حضرت ابراہیم بن ادہم نے دیکھا کہ شفیق بلخی مسجد میں موجود ہیں ـانہوںنے پوچھا کہ تم سفر سے اتنی جلدی کیسے لوٹ آئے ـ شفیق بلخی نے بتایا کہ میں سفر کے دوران ایک ویراں جگہ پر پہنچا اور وہاں پڑاؤ ڈال دیا ـ وہاں میں نے ویرانے میں ایک چڑیا دیکھی جو اڑنے سے محروم تھی۔
مجھے اس پر بہت ترس آیا سوچا کہ اس ویرانے میں یہ کیسے اڑتی ہوگی اور کہاں سے خوراک حاصل کرتی ہو گی ـ ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ کہیں دور سے ایک چڑیا اڑتی ہوئی آئی اسکی چونچ میں کوئی چیز دبی ہوئی تھی وہ معذور چڑیا کے پاس اتری اور وہ چیز گرا دی ـ معذور چڑیانے وہ چیز جو اسکے پاس گری ہوئی تھی اٹھا کر کھا لی ـ سبحان اللہ بے ساختہ ہی میرے منہ سے نکلا کہ اللہ نے اس ویرانے میں بھی کیسے اسکے رزق کا انتظام کر رکھا ہے۔
Hazrat Ibrahim
پھر مجھے اپنے بستے ہوئے شہر کو چھوڑ کر رزق کی تلاش میں کہیں اور جانے کی کیا ضرورت ہے ـ بس یہی سوچا اور واپس پلٹ آیا ـ ساری بات پوری خاموشی سے اور تسلی سے سن کر حضرت ابراہیم ادہم نے کہا شفیق تم نے اپاہج پرندے کی طرح بننا پسند کیا ـ تم نے اس پرندے کی طرح بننے کا کیوں نہی سوچا جو کہیں دور سے مشقت کر کے اس اپاہج پرندے کے لئے رزق لایا۔
یہ کیوں نہیں سوچا کہ تمہاری مثال س پرندے کی سی ہو جو اپنی قوتِ بازو سے خود کما کر لاتا ہے اور دوسرے ہم جنسوں کو بھی کھِلاتا ہے یہ سننا تھا کہ شفیق بلخی نے ابراہیم ادہم کا ہاتھ چوم لیا اور کہا ابو اسحاق تم نے میری آنکھ کا پردہ ہٹا دیا وہی بات سو فیصد درست ہے جو تم نے کیا ـمیں سفر کا آغاز جلد ہی کرتا ہوں۔