کابل (جیوڈیسک) افغانستان کی وزراتِ صحت کے مطابق کے دارالحکومت کابل میں ہزارہ برادری کے ایک احتجاج کے دوران ہونے والے خود کش حملے میں 61 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ زخمیوں کو ہسپتال لے جایا جا رہا ہے۔
اپنے آپ کو دولتِ اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم نے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ دولتِ اسلامیہ مشرقی افغانستان میں سر گرم ہے لیکن اس سے پہلے کابل میں ہونے والے کسی حملے کی ذمہ اس نے قبول نہیں کی تھی۔ ہزارہ برادری کے ہزاروں افراد بجلی کی سپلائی کے منصوبے میں مجوزہ راستے کے تعین کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
وہ اس بات پر ناراض ہیں کہ منصوبے میں جن راستوں کا انتخاب کیا ہے اس کی وجہ سے ہزارہ آبادی والے علاقے نظر انداز ہو رہے ہیں۔ صدر اشرف غنی نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ’پرامن مظاہرہ کرنا تمام شہریوں کا حق ہے لیکن موقع پرست دہشت گردوں نے اس کا فائدہ اٹھایا اور معصموم لوگوں کا قتل کیا جن میں سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی شامل ہیں۔‘
کابل میں ایک صحافی نے بی بی سی کو بتایا کے ہر طرف خون اور انسانی اعضا بکھرے ہوئے ہیں۔ اس احتجاج کے لیے شہر کا ایک بڑا حصہ سیل کیا گیا تھا۔ مظاہرین نے جو بینر اٹھا رکھے تھے ان پر تفریق کے خاتمے سے متعلق نعرے درج تھے۔ ان کا موقف تھا کہ ترکمانستان سے آنے والے بجلی کی لائن ہزارہ آبادی والے علاقے بامیان اور وردک صوبوں سے ہو کر نہیں گزر رہی۔
شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے ہزارہ افغانستان میں تیسرا بڑا گروہ ہیں۔ اور یہ زیادہ تر ملک کے وسطی حصوں میں رہتے ہیں۔ یہ لوگ مسلسل نسلی تفریق کی شکایت کرتے ہیں خصوصاً نوے کی دہائی میں طالبان حکومت کے دوران۔ ان میں سے بیشتر پاکستان، ایران اور تاجکستان نقل مکانی کر گئے تھے۔