جمہوریت وآمریت

Democracy & Dictatorship

Democracy & Dictatorship

تحریر: امتیاز علی شاکر: لاہور
سب سے پہلے توہمیں اس سوال کا جواب تلاش کرناہے کہ آخر جمہوریت وآمریت میں فرق کیاہے؟سادہ الفاظ میں یوں کہاجاسکتاہے کہ جمہوریت عوام کے اقتداراورآمریت کسی فردواحد کی حکمرانی (تسلط) کا نام ہے۔جب ہم وطن عزیزکے ماضی وحال پرنظرڈالتے ہیں تومعلوم ہوتاہے کہ یہاں رائج جمہوریت وآمریت میں کچھ خاص فرق نہیں ہے،جو سیاست دان آج جمہوریت کے ٹھیکیدارہیں کل وہی آمرکی گودمیں بیٹھاکرتے تھے اورآج جوسیاست دان اُن پرتنقیدکرتے ہیں وہ آنے والے کل میں آمرکی گودمیں بیٹھنے کیلئے بیتاب ہیں،نتیجہ یہ نکلتاہے کہ ہمیں جمہوریت سے غرض ہے نہ آمریت سے نفرت ،ہمیں توبس اپنے مفادات ملکی مفادات سے زیادہ عزیزہیں۔جولوگ موجودہ جمہوریت میں مستفید نہیں ہورہے اُن کی خواہش ہے کہ جلد ہی فوج اورٹیک کرلے۔

جبکہ جوسیاست دان جمہوری حکمرانی کی بہتی گنگامیں ڈبکیاں لگارہے ہیںوہ عوام کے مسائل کوحل کئے بغیرہی عوام سے ترک عوام جیسی اُمیدیں لگائے خوب پیسہ( المعروف ڈالر)بنارہے ہیں۔ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ جمہوریت نے ملک وقوم کی قسم بدل کرعوام کوترقی کی روشنی سے متعارف کروادی ہے توپھرمخلص جمہوری حکمرانوں کو خوف کس بات کاہے؟ جمہوریت کی حفاظت کیلئے جس طرح آدھی رات کوترک عوام سڑکوں پر آئے پاکستانی جمہوریت کے ٹھیکیدار پاکستانی عوام سے بھی ترک عوام جیسی اُمیدیں وابستہ کررہے ہیں۔ترک عوام کواپنی محبت میں گرفتارکرنے والے حکمرانوں کی پالیسیوں اوراقدامات پرغورکیاہوتاتوانہیں پاکستانی عوام کو اپنے افواج کے سامنے لانے کی ضرورت نہ رہتی۔ماضی اور حالات حاضرہ کومدنظررکھتے ہوئے خیال ظاہرکرنابڑی حدتک درست ہے کہ فوج آئی تو لوگ جشن منائینگے۔ماناکہ جمہوریت اچھی چیزہے پربیچارے عوام بھی کہاں جائیں؟سونابہت قیمتی ہے پرزندگی سے قیمتی نہیںاسی طرح جمہوریت زیادہ فائدہ مندہے پرجس جمہوریت میں عوام کاجینامشکل سے مشکل ترہوتاجائے اُس کے خاتمے پرلوگ جشن نہ منائیں توکیاماتم کریں؟۔

Turkey Army Rebellion

Turkey Army Rebellion

جس طرح ترکی کے محکمہ پولیس نے باغی فوج کا مقابلہ کیااُس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ وہاں محکمہ پولیس آزاد،کرپشن فری اورخودمختارادارہ ہے حکمران بتائیں کہ پاکستان میں پولیس سمیت کوئی ایک ادارہ بھی خودمختاراورکرپشن فری ہے؟فوج کے آنے کاسن کرلیٹرین میں پناہ لینے والے عوام سے غلط توقعات وابستہ کرنے کے بجائے عوامی مسائل کے حل کی طرف توجہ مرکوز کریں توزیادہ بہترہو۔اس حقیقت سے کوئی بھی انکارنہیں کرسکتاکہ بدترین کرپشن اوربدانتظامی کے باوجودافواج پاکستان نے جمہوریت کوسہارہ دیاہے ۔سوال یہ پیداہوتاہے کہ پیپلزپارٹی کے دور اقتدار میں سڑکوں پرعوامی مقدر کافیصلہ کرنے والی مسلم لیگ ن کی قیادت نے اقتدار میں آ کر کون سے وعدے پورے کئے ہیں؟ توانائی بحران بدستور موجود ہے۔ پٹرول کی قیمتیں عالمی سطح پر جس طرح کم ہوئیں عوام کو اس کے مطابق ریلیف نہیں دیا جا رہا۔ بجلی کی بدترین قلت کے باوجود بار بار قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کیا گیا،اندرون شہر16سے18گھنٹے بجلی غائب رہتی ہے ۔ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال مخدوش ہے۔ قتل و غارت گری’ جبری زیادتی’ راہزنی اور ڈکیتی وچوری کی وارداتیں گزشتہ دور کے مقابلے میں زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہو رہی ہیں۔ مہنگائی کے سامنے بند باندھنے میں حکومت ناکام ہوچکی ہے۔

بیروزگاری کاآسیب لگاتارلوگوں کوخودکشی پرمجبورکررہاہے۔ حکمرانوں کا 150 میگا کرپشن کیسز میں نام آناکیاکم تھاکہ پانامہ لیکس میں بھی انکے خاندان کے افراد کا نام سرفہرست ہیں۔دنیانے دیکھاکہ 1999ء میں مسلم لیگ کی حکومت کا فوج نے بستر گول کردیا تھا۔ عوام تو کیا کسی لیڈر کوبھی فوج کے اس اقدام کیخلاف احتجاج کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی۔ ذرہ سوچیں کہ موجودہ جمہوری حکمرانوںنے عوام پرکیا نوازشات کر دی ہیں کہ لوگ ان کی خاطر کسی قسم کی مہم جوئی کیخلاف سڑکوں پر نکل کراپنے افواج کے سامنے کھڑے ہوجائیںگے؟ پاکستان کاترکی کے ساتھ موازنہ کرنے والے شہروں میں لگے فوج کو اورٹیک کی دعوت کے بینرز تو دیکھیں یہاں عوام فوج کوخودمددکیلئے پکاررہے ہیں تووہ خوداپنی مددکوآنے والے افواج کے سامنے آکرجمہوریت کاتحفظ کیوں کریں گے؟۔

Democracy

Democracy

ہم توبھائی موجودہ جمہوریت کوجمہوریت تسلیم ہی نہیں کرتے پھربھی ہم اس کے حامی ہیں پرہماری یاہم جیسے چند بیوقوفوں کی حمائت عوام کو مہنگائی ،بے روزگاری، کرپشن، سودی نظام، دہشتگردی ، بدانتظامی،دھاندلی اوردیگر مسائل کی دلدل سے نہیں نکال سکتی۔ایسے میں فوج عوام کی مدد کیلئے کرپٹ اورغدارقسم کے حکمرانوں کے خلاف ایکشن لیتی ہے توہم حکومتی پالیسیوں سے تنگ لوگوں کے ساتھ مل کراس کا استقبال نہ کرسکے تو اس کیخلاف آواز بھی بلند نہیں کرینگے، ہماری دلی خواہش ہے کہ پاکستان میں کبھی کسی قسم کی آمریت نہ آئے ،ہمیشہ حقیقی جمہوریت رائج رہے اورحکمرانوں کے ساتھ عوام بھی خوشحال ہوں۔

قومی ادارے خودمختاراورمضبوط ہوں۔پاکستانی حکمران عوام سے ترک عوام جیسے توقعات وابستہ کرناچاہتے ہیں توپھرترک حکمرانوں کی طرح اپنی پالیسیاں عوام کی حمایت میں اس طرح تشکیل دیں کہ وہ ترک عوام کی طرح حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر کسی بھی قسم کی مہم جوئی کی کوشش کو ناکام بنا دیںورنہ بھائی ہم سرعام جشن نہ مناسکے توخاموش چراغاں ضرورکریں گے،افواج پاکستان سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ہرمشکل وقت میں عوام کی مددکرتے ہیں اس لئے عوام کوافواج کے سامنے لانے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوگی ،بہتریہی ہے کہ اپنی کارکردگی کی بنیادپراُمیدیں قائم کی جائیں۔

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

تحریر: امتیازعلی شاکر:لاہور
imtiazali470@gmail.com
03134237099