تحریر: ساجد حبیب میمن بزرگوں سے سنا تھا کہ ایک زمانہ آئے گا جب ایک ہی کمرے میں بیٹھے دو لوگ اجنبی بن کے رہیں گے۔ ان کے پاس آپس میں بات کرنے کے لئے وقت نہ ہو گا۔ وہ زمانہ کچھ زیادہ ہی جلدی آ گیا ہے۔ سوشل میڈیا نے ہر فرد کو اپنے گرفت میں لے لیا ہے اور جس کو سوشل میڈیا کا چسکا لگ جاتا ہے وہ پھر اسی کا ہو کر رہ جاتا ہے۔
تیز رفتار ترقی نے جہاں فاصلوں کو مٹایا ہے وہاں قربتوں کو فاصلوں میں بھی تبدیل کیا ہے۔ ریڈیو کے بعد ٹیلی وژن، ٹیلی وژن کے بعد کمپیوٹر، کمپیوٹر کے بعد انٹرنیٹ اور اب تیز رفتار وائی فائی انٹرنیٹ ، موبائل ڈیٹا پیکجز اور سمارٹ فون نے خلقتِ خدا کودین و دنیا سے غافل کر کے اپنے اندر مگن کر رکھا ہوا ہے۔ دنیا کی ساری ترقی سمٹ کر سمارٹ فون میں سما گئی ہے۔سمارٹ فون ہے تو ٹیلی وژن، کمپیوٹر،لیپ ٹاپ کیمرے،کیم کوڈر، میوزک سسٹم، ریڈیو،کیلکولیٹر، وائس ریکارڈر، فلیش لائٹ، گیمز،گھڑی، کتابیں، کیلنڈر، اخبارات، رسائل، فوٹو البم، ڈائری اور قلم سمیت آپ کو بہت سی چیزوں کو اپنے ساتھ رکھنے کی ضرورت نہیں۔ فیس بک ، ٹوئٹر، انسٹاگرام، وٹس ایپ، سکائپ، ایمو، کے ذریعے آپ پوری دنیا سے براہ راست مخاطب ہو سکتے۔ اپنی تصویریں، آڈیوز، ویڈیوز چند سیکنڈز میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچا سکتے ہیں۔ گوگل میپ سے آپ کو کہیں جانے کے لئے کسی سے راستہ پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ آپ اپنے سمارٹ فون کے ذریعے اپنے گھر، گاڑی کو لاک اور ان لاک کر سکتے ہیں، اس کے علاوہ بے شمار کام ہیں جو سمارٹ فون سے ہو رہے ہیں۔ غرضیکہ اس جادوئی آلے نے دنیا کو ہماری مٹھی میں بند کر دیا ہے۔لیکن کیا انسان اس ساری ترقی سے اپنے ارد گرد موجود لوگوں کے لئے بہتر بن سکا؟ نہیں بالکل نہیں! علامہ اقبال نے کیا خوب کہا تھا:
ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
اگر آج علامہ اقبال ہوتے تو خدا جانے ان کے دل پر کیا گزرتی اور وہ کیا کہتے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ ہر فرد سمارٹ فون کے ذریعے اپنی دنیا میں مگن ہے اور اپنی معاشرتی ذمہ داریوں سے لاغرض ہے۔بچے، بوڑھے،جوان، مردو زن سبھی اس کے سحر میں مبتلا ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے سے لوگ سمارٹ فون کے اندر گھسے ہوئے ہیںلیکن سب سے زیادہ نوجوان طلباء و طالبات متاثر ہو رہے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ امتحانات کے دنوں میں بچے اپنے پرچوں کی تیاری کی بجائے ساری رات دوستوں سے چیٹنگ، تصاویر، آڈیو اور ویڈیو کلپ شیئر کرنے میں گزار دیتے ہیں۔
Smartphone
توبہ استغفار فحش گفتگو اور فحش مواد شیئر کر کے اپنے نفس کی تسکین کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کو کون سمجھائے؟ جب والدین خود اسی شیطانی فتنے کے گرویدہ ہوں ۔ اگر وہ خود سمارٹ فون سے باہر نکلیں گے تو ہی بچوں کو سمجھائیں گے۔ ایک ہی کمرے میں بیٹھے ہوئے میاں بیوی گھنٹوں اپنے اپنے سمارٹ فون کے ذریعے اپنی اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں۔ ان کے پاس آپس میں بات کرنے کے بارے میں سوچنے کا بھی خیال نہیں آتا، تو وہ بچوں کو کیا سمجھائیں گے۔
اسی طرح آج کل انٹرنیٹ اور سمارٹ فون کے اندر ہر فرد کی اپنی دنیا ہے اور وہ اسی دنیا میں کھویا رہتا ہے۔ میں خود بھی سمارٹ فون اور انٹرنیٹ کا بہت زیادہ استعمال کرتا ہوں، یہ وہ میٹھا زہر ہے جسے ہم مل کر پیتے جا رہے ہیں اور اس کے نشہ میں چور ہوتے ہو جارہے ہیں۔ ذرا غور کریں، بچوں کے پاس والدین سے بات کرنے کے لئے وقت نہیں ۔ ایک ہی گھر میں رہنے والے بہن بھائی ایک دوسرے کے دکھ درد سے غافل ہو گئے ہیں، رشتہ داروں سے میل ملاپ کم ہو گیاہے، ہمسایوں اور قریبی دوستوں کے لئے وقت نہیں نکلتا، طلباء و طالبات اور نوجوان تخلیقی فنون سے دور ہو گئے ہیں، کتابیں پڑھنے کا رجحان تقریباً ختم ہو گیاہے، گلی محلے کے بزرگوں اور دوستوں کی محفلیںاجڑ گئی ہیں۔ ملازمت پیشہ افراد اپنے دفتر کے لئے آٹھ گھنٹے دستیاب ہوتے ہیں، طالبعلم تقریباً چھ گھنٹے سکول، کالج یا یونیورسٹی میں گزارتے ہیں، بزنس مین اور تاجر دس سے بارہ گھنٹے کام کرتے ہیں۔
اس کے بعد بچنے والا ٹائم والدین، بیوی بچوں، رشتہ داروں، دوستوں اور ہمسایوں کا حق ہوتا ہے۔ ان سے میل ملاپ رکھنا، ان کی خبر گیری کرناہم پر واجب ہے۔ لیکن آج کل کیا ہو رہا ہے؟ ہم 24 گھنٹوں میں تقریباً 18گھنٹے سوشل میڈیا پر دنیا کے دوسرے کونے میں بیٹھے ہوئے سوشل میڈیا فرینڈز کے لئے تو آن لائن دستیاب ہوتے ہیں لیکن اپنے گھر میں موجود فیملی ممبرز، ساتھ پلنے بڑھنے والے لنگوٹیے دوستوں، دکھ سکھ میں ساتھ نبھانے والے ہمسایوں اور اپنے قریبی عزیزوں کے لئے دستیاب نہیں ہو پاتے۔ مہینے گزر جاتے ہیں ہمسائے سے ملاقات نہیں ہوتی، رشتہ داروں کے گھر آنا جانا نہیں ہوتا، بہن بھائیوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں شریک نہیں ہو سکتے۔
Internet
والدین سے ان کا حال چال پوچھنا یاد نہیں رہتا۔ انٹرنیٹ اور سمارٹ فونز نے ہم سے یہ سب کچھ چھین لیا ہے۔ حقیقت میں ہم ترقی یافتہ نہیں ہوئے بلکہ غریب ہو گئے ہیں۔ ہم سوشل میڈیا سے سوشل نہیں ہوئے بلکہ ہم نے سوشل لائف کو تباہ کر دیا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب گائوں کے جوان اور بوڑھے چوراہوں، چوپالوں، چبوتروں پر بیٹھے ایک دوسرے کے دکھ سکھ بانٹتے اور شغل میلا کرتے نظر آتے تھے ۔ اسی طرح شہروں میں بھی لوگ بیٹھکوں اور چوراہوں پر اکٹھے ہوتے تھے لیکن اب وہ دور ختم ہو گیا ہے۔ آج ایک گھر میں رہنے والے کو یہ نہیں پتا ہوتا کہ اس کے دائیں بائیں کون رہ رہا ہے۔
سوشل میڈیا کوئی بری چیز نہیں ہے لیکن اس کا استعمال ضرورت کے مطابق اور جائز ہونا چاہیے۔ ہم اس کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دے کر اور اپنی زندگی کا حصہ بنا کر غلطی کر رہے ہیں۔ پیشہ ورانہ زندگی گزارنے والوں کے لئے تو اس کا مناسب ستعمال ٹھیک ہے لیکن خدارا نئی نسل کو سوشل میڈیا کی لت نہ لگنے دیں۔ اپنے بچوں اور نوجوانوں کو سمجھائیں۔ ان کو تعمیری و تخلیقی کاموں کی طرف راغب کریں۔ سوشل میڈیا سے زیادہ سوشل لائف پر توجہ دیں۔ امریکہ میں بیٹھے جوزف فرنینڈو سے چھ گھنٹے چیٹ کرنے سے بہتر ہے کہ آپ ایک گھنٹہ اپنی خالہ کے گھر ہو آئیں یا اپنے ہمسائے کے ساتھ گلی میں کرکٹ کھیل لیں۔ سٹائل بدل بدل کر سیلفیاں بنانے اور پھر فیس بک پر پوسٹ کر کے کمنٹ لینے سے بہتر ہے کہ آپ ایک دفعہ نہا کر اپنے کسی اچھے دوست سے ملنے جائیں اور اس سے پوچھ لیں کہ آپ کیسے لگ رہے ہیں۔ یقینا اس سے سے آپ کو فیس بک پر Awesome کے کمنٹ سے زیادہ لطف آئے گا۔
Sajid Habib Memon
تحریر: ساجد حبیب میمن موبائل: 0321-9292108 ای میل: sadae.haq77@gmail.com