تحریر: میاں مدثر شاہین ملک کے معروف کالم اور تجزیہ نگار جاوید چوہدری نے اپنے 22 جولائی کے کالم میں ترکی کے مقبول ترین لیڈر طیب اردگان کو سول ڈکٹیٹر قرار دے ڈالا کہ انہوں نے اپنے سخت فیصلوں کی وجہ سے ترک فوج اور معیشت کو تباہ کر دیا ہے ، چوہدری صاحب نے مزیدکہا کہ کاش طیب اردگان ترک غداروں اور باغیوں کے لئے عام معافی کا اعلان کر دیتا، کاش طیب اردگان عوام کو فوجیوں کی وردیاں پھاڑنے اور انکو سڑکوں پر گھسیٹنے سے روک دیتا، کاش انہوں نے گرفتاریوں کا یہ خوفناک سلسلہ نہ شروع کیا ہوتا تو ترکی میں عوام اور فوج کے درمیان محبت کی فضا قائم رہتی۔ بلا شبہ جاوید چوہدری صاحب کا تجزیہ حقیقت پر مبنی ہے کہ معاف کر دینا ہی بہترین انتقام ہوتا ہے مگر چوہدری صاحب کیا آپ ماضی کو بھول گئے جب ترک فوج نے جمہوریت پر چار دفعہ شب خون مارا تو ہر بار جمہوری حکومت نے ان کا یہ جرم معاف کر دیا کبھی کسی فوجی کی سرزنش نہ کی ، کبھی کسی کو جیل نہیں بھیجا، کسی کو پھانسی گھاٹ پر نہ لٹکایا گیا۔
مگر پھر بھی ان آستین کے سانپوں کو جب موقع ملا یہ ڈسنے سے باز نہ آئے، یہ فوجی آمر اسلام دشمنی میں اس قدر اندھے ہو گئے کہ انکو ترکی کے آئینی صدر عدنان میندریس کو تختہ دار پر لٹکاتے ہوئے ایک پل کے لئے بھی ترس نہ آیا، عدنان میندریس کا جرم صرف یہ تھا کہ انہوں نے اذان اور عبادات کو عربی زبان میں ادا کرنے کی اجازت دی تھی۔ طیب اردگان جب پہلی دفعہ ترکی کے صدر بنے تو انہوں نے بھی فوج کے گزشتہ مظالم کو فراموش کر کے عام معافی کا اعلان کر دیا، انہوں نے عدنان میندریس کا خون بھی معاف کر دیا ، فوج اور عوام کے درمیان فاصلے کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر ان فوجی آمروں نے محبت کا جواب محبت سے دینے کی بجائے ڈسنے کی روایت کو جاری رکھا، اس بار بھی یہ آستین کے سانپ اژدھا بن کر سامنے آئے تو غیور اہل ترکی نے یہ کہتے ہوئے ان کا راستہ روک دیاکہ ہم نے بہت ظلم برداشت کر لیا اب ظلم سہنے کی باری آپ کی ہے اور ترک عوام نے اقتدار کے حریص ان جرنیلوں کو لگام ڈالنے کا حتمی فیصلہ کر لیا تاکہ ظلم کا یہ باب ہمیشہ کیلئے بند ہو سکے ۔
Turkish Rebels
چوہدری صاحب ترک باغیوں کے لئے عام معافی کا مطالبہ کرنے سے پہلے ذرا تاریخ کے اوراق میں جھانکیے ،کہ جب غداروں کو کھلی چھٹی دے دی جائے تو سلطنتیں زوال کا شکار ہو جاتیں ہیں ٹیپو سلطان کی اسلامی سلطنت کو انہی غداروں نے خزائوں کی نظر کیا اگر ٹیپو سلطان میر جعفر اور میر صادق کو موقع نہ دیتے اور وقت پر انکی گردنیں کاٹ دیتے تو اسلام کی سلطنت کا سورج غروب نہ ہوتا۔ چوہدری صاحب میں آپکو اور پیچھے لے جانا چاہتا ہوں جب نوروالدین زنگی کے بیٹے نے یہودیوں کی انٹیلی فورس کے سربراہ جرمن نژاد ہرمن کی ایماء پر سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف بغاوت کر دی تو دو سال مسلمانوں کی فوجیں ایک دوسرے کے گلے کاٹتی رہیں، ایک دوسرے کو خون کا غسل دیتی رہیں پھر جب دو سال بعد سلطان ایوبی نے مخالف اسلامی فوج کو شکست دے دی تو انہوں نے انتقام لینے کی بجائے تمام باغیوں کیلئے عام معافی کا اعلان کر دیا اور اس بغاوت کے سرغنہ لیڈروں کومختلف شہروں کا گورنر لگا کر یہ ثابت کر دیا کہ میری جنگ ذاتی اقتدار کیلئے نہیں بلکہ اسلام کے لئے ہے، سلطان کا خیال تھا کہ میرے اس حسن سلوک سے یہ لوگ اپنے کیے پر شرمندہ ہونگے اورمستقبل میں میرے دست بازو بنیں گے مگر بد قسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ کچھ عرصے بعد موقع ملتے ہی نوروالدین زنگی کے بیٹے نے پھر بغاوت کردی۔
مزید چار سال تک اسلامی فوج نے سلطان ایوبی کا راستہ روکے رکھا ، چار سالوں میں ان باغیوں نے سلطان کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا کہ اس بغاوت کی وجہ سے سلطان ایوبی کا یورپ کو فتح کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا، مگر چار سال بعد سلطان نے جب باغیوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تو تمام غداروں کی چن چن کر گردنیں کاٹ ڈالیں، کسی سے رعایت نہ برتی گئی، جس کا فائدہ یہ ہوا کہ دوبارہ کسی جرنیل میں بغاوت کی جرات نہ ہو سکی اور غداری کا قصہ تمام ہوا۔ جاوید چوہدری صاحب آپ یہ کیوں بھول گئے کہ مصری جرنیلوں نے اخوان المسلمون کے بانی حسن البناء کو گولیوں سے چھلنی کر دیا اور کسی کو انکا جنازہ پڑھنے کی بھی اجازت نہ دی ،انکے گھر کی عورتوں نے نے انکا جنازہ اٹھایا اور اخوان کے روح رواں سید قطب کو ان فوجی آمروں نے صرف اس لیے تختہ دار پر لٹکا دیا کہ وہ مصر میں اسلامی نظام لانا چاہتے تھے جاوید چوہدری صاحب میں آپکو یاد کروانا چاہتا ہوں جب چوالیس سال بعد اہل مصر کو جمہوریت میسر آئی تو مصر کے جمہوری صدر محمد مرسی نے فوج کے تمام مظالم کو معاف کر دیا۔
Egyptian Parliament
مصر کی جمہوری پارلیمنٹ نے اپنے مرشد حسن البنا اور سید قطب سمیت ہزاروں کارکنوں کا خون معاف کر دیا مگر کیا ان جرنیلوں نے ظلم سے توبہ کی؟؟ جنرل السیسی نے ایک سال بعد پھر فوجی بغاوت کر دی اور اخوان کی قیادت سمیت پچاس ہزار لوگوں کو جیلوں میں ڈال دیا، مصری عوام جب سڑکوں پر نکلی تو ان پر ٹینک چڑھا دیئے گئے۔ سینکڑوں لوگوں کو پھانسیاں دے دی گئیں، جاوید چوہدری صاحب سانپوں کے ساتھ وفا کرنے والوں کو دنیا دیوانہ اور پاگل سمجھتی ہے کیوں کہ سانپ کبھی ڈسنے سے باز نہیں آیا کرتے۔ مگر صد افسوس چوہدری صاحب آپکو ظلم نظر آیا بھی تو صرف طیب اردگان کا، ترک جرنیلوں کے ظلم کی سیاہ رات آپکو کیوں دکھائی نہ دے سکی،بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کا 90 سالہ بزرگوں کو تختہ دار پر لٹکانا کیوں نظر نہ آسکا ، مصر میں جنرل السیسی نے جو ظلم کا بازار گرم کر رکھا وہ آپکی نظروں سے کیونکر اوجھل ہو گیا۔
چوہدری صاحب اگر آپ رونا چاہتے ہیں تو گوانتا ناموں بے اور ابو غریب جیل کے مسلمان قیدیوں پر ہونے والے انسانیت سوز ظلم پر روئیے، اگر آپ ماتم کرنا چاہتے ہیں تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر ہونے والے مظالم پر کیجئے جس کو کھانے میں پیشاب دیا جاتا رہا۔ چوہدری صاحب امت مسلمہ کے قلعوں کے دروازے ہمیشہ اندر سے کھلتے رہے دشمن کبھی باہر سے کھولنے کی جسارت نہ کر سکااس لیے ان غداروں کوسزا دینا اب بہت ضروری ہو چکا ہے مگر آپ اطمینان رکھیے کسی کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی نہیں ہو گی ۔ مگر ہاں جاوید چوہدری صاحب میں آپکی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ پاکستان میں لوگ نواز شریف سے زیادہ جنرل راحیل شریف سے محبت کرتے ہیں کیونکہ راحیل شریف اس دھرتی کے ساتھ مخلص دکھائی دیتے ہیں۔