اسلام آباد (جیوڈیسک) افغانستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور امن مصالحت کے عمل میں واضح پیش رفت نا ہونے کے بعد پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں حالیہ مہینوں میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان عدم اعتماد کی فضا کی عکاسی افغان صدر اشرف غنی کے حالیہ بیان سے بھی ہوتی ہے۔
صدر اشرف غنی نے انٹرویو میں کہا کہ پاکستان کے ساتھ ریاست کی سطح پر تعلقات اُن کے ملک کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہیں۔ اُنھوں نے یہاں تک کہا کہ طالبان اور القاعدہ سے بھی بڑا خطرہ پاکستان سے تعلقات کی نوعیت ہے۔
افغانستان کے صدر نے ایک مرتبہ پھر یہ الزام بھی لگایا کہ پاکستان میں افغان طالبان کے دفاتر موجود ہیں جہاں سے وہ جنگجوؤں کو بھرتی کر رہے ہیں۔ افغانستان میں پاکستان کے سفیر سید ابرار حسین نے ایک انٹرویو میں کہا کہ پاکستان افغان طالبان کی کسی طرح کی مالی مدد یا معاونت نہیں کرتا۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے پیر کو خصوصی گفتگو میں کہا کہ مخالفانہ بیان نا تو کسی کے مفاد میں ہیں اور نا ہی یہ کسی مسئلہ کا حل ہے۔
’’پاکستان نے ہمیشہ چاہا ہے کہ افغانستان میں امن ہو اور اس سلسلے میں پاکستان نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے ۔۔۔ہم نے ہمیشہ یہی بات کہی ہے کہ افغانستان میں جو امن ہے وہ پاکستان کے مفاد میں ہے ۔۔۔ ہم نے جو گُڈول یا (اچھے رویے کا جو اظہار کیا ہے) ہم اُمید کرتے ہیں اس کا اُسی طرح جواب دیا جائے گا۔۔۔ میں اس سلسلے میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ مخالفت جو ہے وہ کسی چیز کا جواب نہیں ہے یا حل نہیں ہے۔‘‘
پاکستان کے سابق وزیر داخلہ اور پشتون رہنما آفتاب شیر پاؤ نے گفتگو میں کہا کہ افغان صدر نے اپنے انٹرویو میں کچھ عملی اقدامات پر بھی زور دیا جو کہ اُن کے بقول حقائق پر مبنی بات ہے۔
تاہم آفتاب شیر پاؤ نے کہا کہ میڈیا کے ذریعے سخت بیانات دو طرفہ تعلقات کے لیے کسی طور سود مند نہیں ہیں۔
’’ہم نے یہ ہی تجویز دی ہے کہ اس کے لیے ایک طریقہ کار بنانا چاہیئے جس میں ایک دوسرے کے گلے شکوے دور کیے جائیں۔۔۔۔ جب اس طرح (میڈیا کے ذریعے) ایسے بیانات آتے ہیں تو اس سے عوام میں بھی ایک بے چینی پیدا ہو جاتی ہے۔‘‘
اُدھر پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے پیر کو افغان صدر اشرف غنی سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور 23 جولائی کو کابل میں ہونے والے خودکش بم حملے میں ہلاکتوں پر تعزیت کا اظہار کیا۔