جرمن (جیوڈیسک) صدر رجب ایردوان کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے رکن ممالک میں موجود نہ ہونے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دیگر ملکوں میں اس کے وجود کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔
انہوں نے کہا کہ جمہوری نظام میں فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور ہماری عوام بھی سزائے موت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ صدر نے جرمن ٹیلی ویژن ARD پر فتح اللہ دہشت گرد تنظیم (FETO/PDY) کی 15 جولائی کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد کی پیش رفت کے حوالے سے سوالات کا جواب دیا۔
صدرِ ترکی نے “کیا آپ کے عہدے کا نازک ترین دور یہ ہے” سوال کے جواب میں کہا کہ اس سے پیشتر ترکی میں پیش آنے والی بغاوتوں میں سے کوئی اس شکل میں نہیں ہوئی تھی، یہ کبھی نہیں ہوا کہ ملکی جنگی طیارے اپنی عوام کو ہی نشانہ بنائیں، یہ میری چالیس سالہ سیاسی زندگی کا نازک ترین لمحہ تھا۔
“اس بغاوت کے خلاف آپ کی تیاریاں اعلی پائے کی دکھائی دے رہی ہیں” تبصرے کے حوالے س جناب ایردوان نے بتایا کہ اس بغاوت کی تیاری کا ماضی تیس تا 40 سال کے عرصے پر محیط ہے، ہم نے 14 سالہ دور اقتدار میں عدالتوں اور محکمہ پولیس کے حوالے کافی توجہ سے کام لیا ہے، خفیہ سروس اور اقبالِ جُرم کے ساتھ ہم نے ان کا صفایا کرنے کی کوشش کی ہے۔
اسوقت کی حراستوں اور گرفتاریوں کا فوجی بغاوت سے تعلق رکھنے والے صدر ایردوان نے کہا اس عمل کو غیر قانونی قرار دیا جانا ناممکن ہے۔
خاصکر شعبہ تعلیم سے نوکریوں سے فارغ کیے جانے والوں کی جگہ سرعت نے نئی تعیناتیاں کیے جانے پر زور دینے والے جناب ایردوان نے بتایا کہ اس شعبے میں کسی قسم کا کوئی خلا نہیں آئے گا۔
ایک دہشت گرد تنظیم کی بغاوت کو حکومت کے بر وقت اقدامات کے ساتھ دبائے جانے کی توضیح کرنے والے صدر کا کہنا تھا کہ “ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ تحریک مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے، لہذا ہمیں چوکنا رہنا ہو گا۔ ”
انہوں نے بتایا کہ ہمیں فتح اللہ دہشت گرد تنظیم (FETO/PDY) کے سرغنہ فتح اللہ گیولن کے بارے میں سالہا سال سے جاری امور کی وساطت سے جامع معلومات حاصل ہیں، باغیوں نے اس شب مسلح افواج کے سربراہ خلوصی آکار سے اس شخص سے بات کروانے کی کوشش کی گئی تھی۔
ہنگامی حالت کے نفاذ کے دورانیہ کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے فرانس میں تین ۔ تین ماہ کے لیے ہنگامی حالت کے نفاذ پر توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ “ہم نے حکومت کا تختہ الٹنے کے خلاف ایمرجنسی نافذ کی ہے، اگر ضرورت پڑی تو اس میں توسیع بھی ممکن ہے۔ ”
یورپی حکام کے شامی مہاجرین کے لیے اعلان کردہ مالی امداد کے حوالے سے محض علامتی اقدامات اٹھانے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے صدر کا کہنا تھا کہ ان کا یہ موقف غیر مخلصانہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ” ہم مہاجرین کے معاملے میں دیے گئے وعدوں پر کاربند ہیں، اسوقت تیس لاکھ شامی ہمارے ملک میں مقیم ہیں۔ اگر ہم ان کو آزاد چھوڑ دیتے تو پھر مغربی ملک کیا کرتے؟ ان کے لیے مطالبہ کردہ رقوم کہاں ہیں؟
ویزے کی چھّوٹ کے معاملے پر بھی لازمی اقدامات اٹھائے جانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ واپسی قبول معاہدے کے دائرہ عمل میں اس موضوع پر بھی غور کیے جانے کا کہا گیا تھا تا ہم اس وعدوں کو بھی پورا نہیں کیا گیا۔
ARD چینل کے ترکی میں معاشی صورتحال کے خراب ہونے کے دعووں کے حوالے سے صدر ایردوان نے کہا کہ حقیقت اس کے برعکس ہے ہمارے اقتصادی اعداد وشمار، زرمبادلہ کے ذخائر ، برآمدات کے اعدادو شمار اور سیر سیاحت کی آمدنی 15 جولائی کی فوجی بغاوت سے قبل کے دور اور یورپی یونین کے اعتبار سے کہیں زیادہ بہتر سطح پر ہے۔
معاشرے میں تفریق بازی کیے جانے کے دعووں کے بارے میں انہوں نے کہاکہ” آپ یہ سوال کس بنیاد پر پوچھ رہے ہیں یہ میری سمجھ سے بالائے طاق ہے۔ تمام تر نسلی طبقوں اور عوام نے جمہوریت کی پاسداری کا مظاہرہ کیا ہے، کیا آپ ان تمام طبقوں کے یک آواز کو دیکھنے سے قاصر ہیں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ترکی اس سلسلے سے کہیں زیادہ طاقتور بنتے ہوئے ابھرے گا۔