کراچی زخموں سے چور

Karachi Target Killing

Karachi Target Killing

تحریر : واٹسن سلیم گل
ہمارا کراچی اس وقت زخموں سے چُور ہے۔ بےیارومددگار زخمی شخص کی طرح جس کی کراہنے کی آواز سسُننے کے لئے کوئ نہی ہے۔ کوئ اس کے زخموں کے لئے دوا دارو کرنے کو تیار نہی ہے۔ اس بڑے شہر پر گندی سیاست کر کے اسے سزا دی جارہی ہے۔ روشنیوں کا شہر آج اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ خوشبوؤں کے شہر کی گلیاں آج کچرے کی بدبو سے اٹی پڑی ہیں۔ خوابوں کے شہر کے باسیوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔ پینے کے لئے تازہ اور صاف پانی نہی ہے مگر گلیوں میں ابلتے گٹروں کا پانی موجود ہے۔ جس شہر میں کبھی رات نہی ہوتی تھی اب وہاں دن میں بھی سناٹا ہوتا ہے۔ جبکہ میں نے لندن، ایمسٹرڈیم، جینوا، برلن، ٹوکیو، بینکاک میں بھی رات دیکھی ہے۔ میں کراچی کے حوالے سے جزباتی ہو جاتا ہوں کیوں کہ نہ صرف یہ شہر پاکستان کی شہ رگ ہے بلکہ یہ میرا شہر ہے میں یہاں پیدا ہوا ہوں۔ میرا بچپن، لڑکپن اور جوانی اسی شہر کی ہواؤں میں موجود ہے۔

مجھے سمجھ نہی آرہی ہے کہ بات کہاں سے شروع کروں۔ جو کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ اگرکہا تو یہ کالم نہی چھپے گا۔ نہی کہتا تو خلش رہے گی ۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ کراچی کی سیاست بہت خطرناک موڑ پر جا رہی ہے۔ اور حیرت انگیز طور پر ہمارے ارباب اختیار کو اس کا ادراک ہی نہی ہے۔ سقوط ڈھاکہ سے ہم نے کوئ سبق حاصل نہی کیا۔ حمود الرحمان کمیشن کا کیا ہوا، پاکستان کی تقسیم کے زمہ داروں کا کیا ہوا کسی کو کچھ نہی معلوم۔ کسی کے گھر یا بس کا شیشہ توڑنے والوں کے لئے تو سزا ہے مگر پاکستان توڑنے والوں کے جرائم پر پردہ ڈال دیا گیا۔ ہم آج بھی کمفیوزڈ ہیں کہ بنگالی غدار تھے یا نہی۔ جو بنگالی 1965 کی جنگ میں ہمارے شانہ بہ شانہ کھڑے تھے۔ وہ صرف پانچ سال میں غدار ہو گئے یا بنا دیے گئے۔سقوط ڈھاکہ کےسانحے کو ابھی بمشکل سال گزرا ہو گا کہ پاکستان کو مضید کمزور کرنے کی ایک اور سازش کا آغاز ہوا 1972 میں بھٹو حکومت نے اردو کے بجائے سندھی کو سندھ کی سرکاری زبان قرار دے کر لسانی جھگڑے کا آغاز کیا۔

بھٹو صاحب کی بیگم ایران سے تعلق رکھتیں تھی تو سندھ میں اسکولوں میں فارسی زبان لازمی قرار دی گئ۔ 80 کی دہائ میں کراچی میں ہر سرکاری ادارے جن میں شناختی کارڈ کے دفاتر،پولیس، کراچی بورڈ، ٹیکسیشن وغیرہ میں 95 فیصد افسران سندھی زبان بولنے والے تھے۔ پھر85 میں بشری زیدی کی موت اور اس کے جنازے میں شرکت کرنے والے مہاجر طالب علموں پربنارس چوک پر حملے نے کراچی کی سیاست کو بدل دیا۔ پھر لسانی فسادات جن میں پنجابی، پھٹان اور مہاجر قتل ہوئے وہ مہاجر جن کے بارے میں محاورہ (اب کی ماریو) مشہور تھا وہ اب لڑنا سیکھ گئے تھے مگر لسانی فسادات میں مہاجر بھی مارے گئے، سہراب گوٹھ، بنارس چوک، سلطان آباد میں بھی لاشیں گری مگر مجرم صرف مہاجروں میں تلاش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

MQM

MQM

میں یہ جانتا ہوں کہ کراچی کی 80 فیصد آبادی ایم کیو ایم کو اپنی منزل سمجھتی ہے۔ مگرزبردستی ان کوایم کیو ایم سے دور کیا جا رہا ہے۔ ایم کیو ایم کو ٹھپہ مافیا کہنے والوں کہ منہہ اس وقت بند ہو گئے جب این اے 246 کے الیکشن میں رینجر کی موجودگی میں تقریبا ایک لاکھ ووٹ لیکر ایم کیو ایم کامیاب ہوئ۔ الیکشن کمیشن نے ان کی درخواست مسترد کر دی تھی کہ ووٹینگ کے وقت میں دو گھنٹے کا اضافہ کیا جائے۔ ورنہ نتیجہ کچھ اور ایم کیو ایم کہ حق میں ہوتا۔ اور حال ہی میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن جو رینجر کی موجودگی میں ہوئے۔ پاکستان کی تمام سیاسی اور مزہبی پارٹیاں مل کر ایم کیوایم کے خلاف صف آراء تھیں مگر ان الیکشن میں بھی کراچی کی عوام نے ایم کیو ایم کو ووٹ دیکر یہ ثابت کر دیا کہ وہ الطاف حسین کے ساتھ ہیں۔ 1992 سے اس جماعت کو غدار قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر سوائے ایک بھیانک پروپیگنیڈہ کے کچھ حاصل نہی ہوا بلکہ ایم کیو ایم کراچی سے باہر حیدرآباد، سکھر، میرپورخاص اوراندرون سندھ میں زیادہ مضبوط ہو گئ۔

ہاں یہ پروپیگینڈہ جوزف گوئبلز کے پروپیگنیڈہ سے زیادہ خطرناک ثابت ہوا کہ اردو بولنے والوں اور پاکستان کے دیگر زبان بولنے والوں کے درمیان تفریق پیدا ہو چکی ہے۔ (کوئ مانے یا نہ مانے)۔ فوج کے خلاف خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، محمود خان اچکزئ، عمران خان کے بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں مگر زیرعتاب صرف الطاف حسین ہیں۔ ایک ایک سیٹ کی جماعت کے لیڈرزگھنٹوں میڈیا پر بولتے ہیں۔ مگر 25 قومی اسمبلی، 54 صوبائ اسمبلی اور آٹھ سینٹر کے لیڈر کو میڈیا پر بولنے کی اجازت نہ ہونا انصاف نہی ہے۔

ایک طرف عمران خان کنٹینر پر آئ جی پنجاب کو دھمکاتے ہیں اور ایک ایس ایس پی کو اسی دھرنے میں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کوئ پوچھتا نہی ہے۔ مگر کراچی کا ایک معمولی ایس ایس پی کراچی کی سب سے بڑی جماعت کے نمایندوں کو دھمکاتا ہے اس پارٹی کا غدار قرار دیتا ہے اور اسی پارٹی کے عوامی نمائندے کو گرفتارکر کے اسی افسر کے حوالے کر کہ ایم کیو ایم کی تزلیل کی جاتی ہے جونفرت کا باعث بن رہی ہے۔ ایم کیو ایم کو ان کے اپنے علاقوں میں کام کرنے نہی دیا جارہا ہے۔

Pak Army

Pak Army

ایم کیو ایم کراچی کو صاف کرنے کا علان کرتی ہے تو سندھ حکومت کراچی کی مشینری کراچی کے نمایندوں کو دینے سے انکار کر دیتی ہے۔ اور اگر وہ اپنی مدد آپ کے تحت صفائ مہم شروع کرتے ہیں تو رینجر ان کے لڑکوں کو گرفتار کرنا شروع کر دیتی ہے۔ کراچی کے منتخب مئیر کو الطاف حسین کی تقریر پر تالیاں بجانے کے جرم میں جیل بھیج دیا گیا مگر زوالفقار مرزا صاحب جو خود میڈیا پر اپنے بڑے بڑے جرائم کا اقرار کرتے رہے ہیں آزاد ہیں۔ آج کل ٹی وی ٹاک شوز میں چند دانشوروں کی ایک منطق سمجھ سے باہر ہے کہ ایم کیو ایم پر پابندی لگائ جائے کیوں کہ انڈیا کبھی بھی قبول نہی کرے گا کہ را کا ایم کیو ایم سے کوئ تعلق ہے۔ یعنی اگر ایم کیو ایم کا را کے ساتھ کوئ تعلق ثابت نہ بھی ہو تب بھی ایم کیو ایم پر پابندی لگائ جائے۔

میں جانتا ہوں کہ ایم کیو ایم دودھ کی دھلی ہوئ نہی ہے مگر یہ بھی سوال ہے کہ کیا ایم کیو ایم احمقوں کی جماعت ہے جو جانتی ہے کہ لاش کو بوری میں بند کر کے پھینکیں گے تو پتا چلے گا کہ یہ کام ہمارا ہے۔ یا 12 مئ کو اپنے جھنڈے ہاتھ میں اٹھا کر دوسروں کی لاشیں گرایں۔ یہ انڈیا سے ٹرینگ لے کر آئے ہیں مگر رینجر کے آپریشن کے خلاف ایک گولی نہی چلاتے۔ یہ چیخ رہے ہیں کہ ہم پاکستانی ہیں محب وطن ہیں۔

یہ فوج کے حوصلے اور ہمت کے لئے ان کے حق میں ریلیاں نکالتے ہیں۔ خدارا ان کے ساتھ بات چیت کریں کچھ ان کی سنیں کچھ ان سے کہیں۔ اگر آپ بلوچستان کے باغیوں سے بات کر سکتے ہیں تو یہ تو پھر لاکھوں ووٹ لیکر منتخب ہوئے ہیں ان سے بھی بات ہو سکتی ہے۔ کراچی پاکستان ہے کراچی کے عوام بھی پاکستانی ہیں ان سے پاکستانیت کا سرٹیفیکٹ مانگنے کے بجائے ان پر بھروسہ کیا جائے۔

Watson Gill

Watson Gill

تحریر : واٹسن سلیم گل