تحریر : عبدالرزاق خبر کیا تھی گویا خوشی کا پروانہ تھا کہ سائیں قائم علی شاہ صاحب اپنی تمام تر سستی سمیت وزیر اعلیٰ ہاوس سے رخصت ہونے کو ہیں اور ان کی جگہ مراد علی شاہ وزارت اعلیٰ کے سب سے مضبوط امیدوار ہیں۔کراچی کو زخم زخم کر کے شاہ جی تو چلے جائیں گے لیکن اس سستی ،بے پرواہی اور نالائقی کا حساب کون لے گا جس کا موصوف نے اپنی وزارت اعلیٰ کے تینوں ادوار میں خوب پرچار کیا۔ شاہ جی کی چند خوبیوں کو دیکھ کر پیپلز پارٹی نے وزارت اعلیٰ کا منصب ہمیشہ ہی ان کے دامن میں سجایا۔ ان خوبیوں میں سر فہرست خوبی وفاداری ہے۔ شاہ صاحب ہر اچھے برے دور میں پیپلز پارٹی کے وفادار رہے اور اپنی پارٹی قیادت کی محبت کے گیت گاتے رہے۔
شاہ صاحب نے اپنی سیاست کا آغاز چیرمین ضلع کونسل خیر پور سے کیا اور بعد ازاں ذولفقار علی بھٹو کی قائم کردہ سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کی صفوں میں شامل ہو گئے ۔پیپلز پارٹی کے قافلے میں شامل ہونے کے بعد آپ نے انتخابی میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئیے۔ 1990 میں منعقدہ الیکشن میں کامیاب ہوے۔ 1993میں بھی انتخابی میدان میں سرخرو ہوے جبکہ 2002 ،2008 اور 2013 کے الیکشن میں بھی اپنے حریفو ں کو مات دے کر فتح یاب رہے ۔یوں شاہ صاحب کا انتخابی میدان میں کامیابی سمیٹنے کے علاوہ پارٹی سے وفاداری ایسا شاندار کارنامہ ہے جس کے صلہ میں شاہ صاحب کو تین مرتبہ وزارت اعلیٰ کا منصب پلیٹ میں رکھ کر دیا گیا اور جناب نے کراچی سمیت پورے سندھ کے ہر ادارے کا حشر نشر کر دیا۔
انتظامی صلاحیت سے عاری، دور اندیشی کے وصف سے محروم ،معاملہ فہمی اور فیصلہ سازی جیسے اوصاف سے محروم اس شخص نے اہم نوعیت کے قومی معاملات کو اس قدر بھونڈے انداز میں ڈیل کیا کہ اس صورتحال کا حقیقی نقشہ کھینچنا قلم کے بس میں نہیں ۔جو کام وزیر اعلیٰ کے کرنے والے تھے وہ کام آج فوج اور رینجر انجام دے رہی ہے ۔اب اللہ بہتر جانتا ہے کہ شاہ صاحب کی رخصتی فوج کے دباو کا نتیجہ ہے یا بلاول بھٹو کی پیپلز پارٹی کے مردہ بدن میں نئی جان ڈالنے کی اک کوشش ۔ شنید ہے کہ بلاول بھٹو آزاد کشمیر سمیت پورے پاکستان میں پارٹی کی تنظیم نو کا ارادہ رکھتے ہیں اور پارٹی میں موجود ایسے عناصر کو عہدوں سے الگ کرنا چاہتے ہیں جن کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
Bilawal Bhutto
غور طلب بات یہ ہے کہ کیا بلاول بھٹو سیاسی بصیرت کے اس درجہ پر فائزہیں کہ وہ اپنے دوررس اقدامات اور دوراندیش فیصلوں کی روشنی میں پیپلز پارٹی کے تن مردہ میں نئی روح پھونک سکیں ۔ قومی سیاسی منظر نامہ میں ن لیگ تو مقبولیت کے اعتبار سے سر فہرست دکھائی دیتی ہے اور آئندہ الیکشن تک بھی بظاہر یہی امکان ہے کہ وہ مقبول ہی رہے گی لیکن پاکستان میں سیاست ابال کی طرح ہے کب کیا ہو جائے کچھ کہا نہیں جا سکتا ۔ امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ پیپلز پارٹی کی جگہ تحریک انصاف لے لے گی لیکن اب صورتحال جو آنکھوں کے سامنے ہے اس کے مطابق یہ کہنا زمینی حقائق کے منافی نظر آتا ہے۔
تحریک انصاف ان دنوں اپنی اندرونی سیاسی ریشہ دوانیوں کی زد میں ہے۔ خیر پختونخواہ میں ایک ناراض گروپ تشکیل پا چکا ہے جوعمران خان سمیت پرویز خٹک کو بلیک میل کرنے میں مصروف ہے ۔ ضیا آفریدی کا معاملہ بھی تحریک انصاف کے لیے گلے کی ہڈی بنا پڑا ہے اور ضیا آفریدی بھی تحریک انصاف کو کمزور کرنے میں اپنا پورا زور لگا رہے ہیں ۔ دوسری جانب عمران خان حکومت مخالف تحریک چلانے پر کمر بستہ ہیں ۔ اب ان حالات میں اگر تحریک انصاف کی قیادت سے کوئی غلط فیصلہ ہو گیا اور بلاول نے اپنے کارڈز بہتر انداز میں کھیلے تو ممکن ہے پیپلز پارٹی کی گرتی ساکھ سنبھل جائے اور تحریک انصاف سیاسی افق سے پھسل جائے۔
میری دانست میں سربراہ تحریک انصاف عمران خان جو حقیقی فائٹر ہیں حکومت مخالف تحریک کی صورت سیاسی جوا کھیلنے کا حتمی فیصلہ کر چکے ہیں ۔ اب ان کا احتجاج اگر تو ہٹ ہو گیا اور عوام نے ان کے ہاتھوں میں ہاتھ دے دئیے تب تو تحریک انصاف کا مورال آسمان کی بلندیوں کو چھو لے گا اور نتیجہ عمران خان کی حسب منشا برآمد ہو جائے گالیکن اگر عوام خان صاحب کے احتجاج سے متاثر نہ ہوے اور اس احتجاج کو پذیرائی نہ بخشی توپھر تحریک انصاف کے مایوس کن مستقبل کے امکانات روشن ہیں یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف میں موجود بہت بڑا طبقہ خان صاحب کے اس فیصلہ کو دانشمندانہ فیصلہ قرار نہیں دیتا اور ان کی خواہش ہے کہ عمران خان یہ سیاسی جوا نہ کھیلیں ۔ کیونکہ اگر ان کے اس اقدام کا نتیجہ توقع کے بر عکس رہا تو ن لیگ تن تنہا ملکی تقدیر کے فیصلوں میں آزاد ہو گی جو کسی صورت بھی مناسب عمل نہ ہو گا۔
علاوہ ازیں خان صاحب کو یہ پہلو بھی مد نظر رکھنا ہو گا کہ قائم علی شاہ کی چھٹی اور کراچی میں رینجرز کے اختیارات میں توسیع کا عمل اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ پیپلز پارٹی اپنی پالیسی میں یو ٹرن لے چکی ہے اور بلاول بھٹو زرداری پارٹی تنظیم کی از سر نو تعمیر کے علاوہ پارٹی میں نئی اقدار متعارف کروانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔اگر بلاول بھٹو اپنی کوششوں میں کامیاب ہو گئے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان تحریک انصاف کو ہو گا کیونکہ تحریک انصاف ہی ایک ایسی جماعت ہے جس کے بارے میں یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کی جگہ لے چکی ہے اور ن لیگ کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے۔
PPP
پیپلز پارٹی کا مسلہ یہ ہے کہ اس کے سر پر کرپشن کے بادل پوری آب و تاب سے منڈلا رہے ہیں اور مطلع صاف ہونے کا امکان بھی نظر نہیں آتا۔ بلاول بھٹو جو سر توڑ کوششوں میں ہیں کہ کسی طرح کرپشن کے یہ دھبے صاف ہو جائیں لیکن فی الوقت وہ اپنی اس کوشش میں ناکام ہیں اور پارٹی کا گراف مزید روبہ زوال ہے لیکن اگر وہ قائم علی شاہ کی چھٹی جیسے بولڈ فیصلے کرنا شروع ہو گئے تو ممکن ہے پیپلز پارٹی کی گرتی ساکھ کو سہارا مل جائے او ر وہ اپنی جگہ تحریک انصاف کو نہ لینے دے۔ پیپلز پارٹی کی ساکھ کو ضرب لگانے میں کافی حد تک شاہ صاحب کی ناقص طرز حکمرانی کا بھی ہاتھ تھا۔
اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ان کی جگہ آنے والے نئے وزیر اعلیٰ کیسی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں کیونکہ اس کی کارکردگی پیپلز پارٹی کی سیاست کو اک نیا رخ دے گی۔ اگر تو متوقع وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے جدید خطوط پر طرز حکمرانی کی بنیاد ڈالی اور کرپشن کے خاتمہ سمیت امن و امان کی حالت میں بہتری کے لیے سنجیدہ اور مربوط پالیسی اپنائی تو ممکن ہے پیپلز پارٹی کے مردہ بدن میں نئی جان ڈل جائے لیکن اگر انہوں نے بھی قائم علی شاہ کی حکمرانی کی طرح ہر سطح پر سست روی کا مظاہرہ کیا تو خدشہ ہے کہ سندھ بھی پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے پھسل سکتا ہے اور پھر قومی سیاست میں دوبارہ قدم جمانا پیپلز پارٹی کے لیے اک خواب کا درجہ اختیار کر جائے گا۔