کراچی (جیوڈیسک) پاکستان کے صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی سے منگل کو مبینہ طور پر لاپتہ ہونے والے بلوچ سماجی کارکن اور پبلشر عبدالواحد بلوچ کے بارے میں تاحال کوئی معلومات سامنے نہیں آ سکیں۔
ان کے رشتے داروں کا الزام ہے کہ انھیں خفیہ ادارے کے اہلکار ساتھ لے گئے ہیں جب کہ پولیس نے واقعے سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔ واحد بخش بلوچ کی بیٹی ہانی بلوچ نے بی بی سی کو بتایا کہ منگل کو ان کے والد اندرون سندھ ایک تقریب میں شرکت کے بعد واپس آ رہے تھے کہ کراچی ٹول پلازہ کے قریب ملیر موڑ پر وین روک کر انھیں اتارا گیا۔
’والد کے ساتھ ایک دوست بھی موجود تھے، دو اہلکاروں نے پہلے ان کا شناختی کارڈ دیکھا اس کے بعد میرے والد کا شناختی کارڈ دیکھا، اس کے ساتھ ان میں سے ایک موبائل فون میں کچھ دیکھنے لگا شاید اس میں تصویر تھی دونوں کو دیکھنے کے بعد میرے والد کو کہا کہ سامان لیکر اتر آؤ، ساتھ میں انھوں نے وین ڈرائیور کو کہا کہ جلدی نکل جاؤ۔‘
ہانی بلوچ کے مطابق والد کے دوست نے انھیں بتایا کہ اہلکاروں میں سے ایک سادہ لباس اور ایک نے کالے کپڑے پہنے رکھے تھے، جو ان کے والد کو نیلے رنگ کی گاڑی میں ڈال کر اپنے ساتھ لے گئے۔عبدالواحد بلوچ کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اطلاع ملنے کے بعد وہ گڈاپ تھانے ایف آئی آر درج کرانے گئے تھے لیکن حکام نے انکار کردیا، جب کہ گڈاپ پولیس نے رابطے پر واقعے سے لا علمی کا اظہار کیا ہے۔
عبدالواحد بلوچ سول ہسپتال کراچی میں ٹیلیفون آپریٹر ہیں، وہ پریس کلب پر بلوچ انسانی حقوق کی تنظیموں کے احتجاج و سیمینار میں باقاعدگی سے شریک ہوتے رہے ہیں۔ عبدالواحد بلوچ کی بیٹی ہانی بلوچ کا کہنا ہے کہ ان کے والد کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں وہ صرف مظلوموں کے احتجاج میں شامل ہوتے تھے اور اس کے علاوہ اپنے خرچے پر کتابوں کی اشاعت کراتے تھے۔
پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کو بھی عبدالواحد بلوچ کی گمشدگی کی درخواست دی گئی ہے، کمیشن کے پاس رواں سال کے سات ماہ میں 300 سے زائد لاپتہ افراد کی درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن کے وائس چیئر مین اسد بٹ کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کے رشتے داروں سے ایک فارم پر کروایا جاتا ہے جو وہ اپنے مرکزی دفتر لاہور بھیجتے ہیں اور وہاں سے جبری گمشدگی کے حوالے سے اقوام متحدہ کی خصوصی کمیٹی کو ارسال کیا جاتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ وہ عبدالواحد بلوچ کے حوالےسے آئی جی سندھ پولیس اور ڈی جی رینجرز کو خط تحریر کر رہے ہیں، اس کے علاوہ وہ لاپتہ افراد کے رشتے داروں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ واقعے کی ایف آئی آر درج کرائیں کیونکہ عدالت میں پٹیشن کی صورت میں عدالتوں کا یہ پہلا سوال ہوتا ہے۔
بلوچ کارکنوں کی گمشدگی کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور دیگر تنظیموں کا احتجاج جاری ہے، کوئٹہ پریس کے باہر ماما قدیر بلوچ کی قیادت میں احتجاجی کیمپ موجود ہے، جس میں لاپتہ افراد کے رشتے دار روزانہ اپنا احتجاج رکارڈ کراتے ہیں۔
بلوچستان اور سندھ سے گذشتہ ایک دہائی سے سیاسی، سماجی اور ادبی کارکنوں کی جبری گمشدگیوں کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے بھی کمیشن بنایا گیا تھا، جس کے پاس 100 سے زائد درخواستیں زیر سماعت ہیں، یہ افراد کوئٹہ، مستونگ، خصدار، ڈیرہ بگٹی اور دیگر علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔