تحریر : عرفانہ ملک کچھ مواقع جب ہم ضائع کردیتے ہیں تووہ ہمیں پھر نہیں ملتے اوراگر مل بھی جائیںتو وہ نہیں ہوتے جوہم کھو چکے ہوتے ہیں ہم وقت کے ساتھ رہنے کی حسرت میںہی رہ جاتے ہیں۔اور وقت آگے نکل جاتاہے۔اوروہ اپنی تند وتیز ہوائوں میںبہت کچھ ساتھ اڑاکرلے جاتاہے ۔اورہم اپنی انا کے گھوڑے پر کتنا ہی سفر طے کرلیں سفر ختم نہیںہوتا اپنے بیتے ہوئے لمحوں کی یاد میں اوراپنی چھپی ہوئی متاع کے غم کو سینے سے لگائے رکھتے ہیں سب مل جائے تب بھی گلہ ہے نہ ملے تب بھی شکایت رہتی ہے۔شاید بہشت اسی نعمت کانام ہے۔جو ہم سے چھن جائے تب ہی خیال آتاہے ہم نے کیا کھودیا ۔کثرت مقاصد نے ہمیں بہتر زندگی گزارنے پر مجبورکیا ہم خود بھی تو زندگی میںمرے ہوئے ہیں۔اورمرنے کے بعد کیونکر زندہ رہیںگے۔اسلام نے تو بامقصد زندگی کے ساتھ بامقصد موت کا فارمولا بھی بتا چھوڑاہے۔جولوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ مت کہو۔اسی اسلام نے ہررشتے کا مقام بھی ہمیںبتایا ہوا ہے۔مگر جب جانتے ہیں تب بہت کچھ کھوچکے ہوتے ہیں۔
بھول ایک چھوٹا سا لفظ ہے مگر جب یہ زندگی سے ہٹ جائے تو شایدجینا بھی دوبھر ہوجائے ۔ہمیں رویے ،لوگوں سے لگے گھائو لازماً بھولنا ہیں۔یہ وہی لفظ ہے جس کا عمل اس کا وقت ہمارے سامنے آتاہے۔جب ہم کسی مرنے والے کے ساتھ مرنے کی خواہش کرتے ہیں پھر یہی بھول زخم پر ایسامرہم کاکام کرتی ہے۔جس سے ہم پھرسے جینے کی راہ اختیارکرلیتے ہیں۔کچھ دن پہلے چھوٹے بھائی کی کراچی سے کال آئی،کہ والدہ محترمہ کی طبیعت ناساز ہے وہ بولنے کے قابل نہیں رہیں یہ سن کر ہم سے رہا نہ گیا اورکراچی کے لئے روانہ کھڑے ہوئی۔ویسے ہی کئی روز سے والدہ سے کوئی بات ٹھیک سے نہیںہورہی تھی اس لئے سوچا اب اور دیر نہیںہونی چاہیے کہیں ہم اپنی دنیا داری میں یہ لمحات ضائع نہ کردیں۔
Grief
جب ادھر پہنچے تو یہ دیکھاکہ والدہ محترمہ اب دیکھنے کے قابل بھی نہ رہی تھیں۔ان کی ایک آواز سننے کے لئے کان ترس گئے تھے۔کہ شاید پھر وہی آواز ہمارے کان میں گونجے جس میںوہ ہمیں عرفانہ کی بجائے عرفان کہہ کر پکاراکرتی تھیں۔وہ پھیکی بے رونق آنکھیں جن میں ہماری یاد کے سوائے کچھ نہ تھا۔اس دیے کی طرح ٹمٹما رہی تھیں جو رات کے پچھلے پہر بجھنے کے لئے پھڑپھڑاتاہے۔وہ بجھ چکی تھیں اوردل کویہ صدمہ کھائے جارہاتھا کہ ہم نے بہت دیر کردی۔ورنہ کچھ باتیں ضرور والدہ سے کرلیتے۔اب بہت دیر ہوچکی تھی،شام نے اس سورج کو غروب کرنا تھا۔عمر گزرے گی ایک پل تو گزرتانہیں اس گود سے بچھڑنے کا وقت آگیا جو دنیا کی محفوظ ترین گود تھی۔ان لوریوں سے جدائی لمحہ آگیا جس نے خود نہ سونے کی اور ہمیں سلایا۔
رام کرے ایسا ہوجائے میری نیندیا تو مل جائے میںجاگوںتو سوجائے میںجاگوں تو سوجائے اب ان کانوں میںوہ آواز کبھی نہیں آئے گی۔جوکراچی کے بے ہنگم شور میں گم ہوچکی تھی جو کبھی ہمیںپکارا کرتی تھی ہاں ان کانوںنے نزع کی آخری ہچکی کے سواکچھ نہیںسنا۔ نزع کی آخری ہچکی کو ذرا غورسے سن زندگی بھر کا خلاصہ اسی آواز میںہے