کراچی میں دہشت گردی

Karachi Terrorism

Karachi Terrorism

تحریر : سید توقیر زیدی
کراچی میں دہشت گردوں نے پاک فوج کی گاڑی پر فائرنگ کردی، جس سے 2اہلکار شہید ہوگئے۔ صدر میں واقع کے ایم سی کے پارکنگ پلازہ کے قریب سہ پہر چار بجے پاک فوج کے جوان ڈبل کیبن گاڑی میں گشت پر تھے کہ دہشت گردوں نے پیچھے سے وار کیا۔ فائرنگ کے باعث گاڑی بے قابو ہو کر دیوار سے جا ٹکرائی۔ حملے کے وقت علاقے کے کیمرے بند تھے۔ فوجیوں پر ایک ایسے وقت میں حملہ ہوا ہے کہ کراچی میں رینجرز آپریشن جاری ہے۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ بہت ہی سنگین واقعہ ہے۔ حملہ آوروں کا فرار ہو جانا اور علاقے کے کیمروں کا بند پایا جانا بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ ہمارے سراغ رسانی کے شعبے کی ناکامی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ واردات کو 24 گھنٹے گزر چکے ہیں، لیکن ابھی تک ملزموں کی گرفتاری نہیں ہو سکی۔

راستہ میں جا بجا ناکے لگے ہوئے ہیں۔ دہشت گرد ہر رکاوٹ کو آسانی سے پار کرتے چلے گئے۔یہ حملہ سوچی سمجھی سازش ہے جس کے کئی محرکات ہوسکتے ہیں۔ رینجرز کی تعیناتی اور اختیارات میں توسیع کا مسئلہ خواہ مخواہ لٹکا ہوا ہے۔ صوبائی حکومت قوت فیصلہ سے محروم ہے۔ جو کام بالاآخر ہونا ہے، اسے لٹکائے چلے جانا اس قسم کے واقعات کوجنم دینے کا باعث بنتا ہے۔ ایک اور محرک بھی ہو سکتا ہے، آرمی چیف نے دس بارہ دن پہلے کچھ دہشت گردوں کی پھانسی کے فیصلے پر دستخط کیے، یوں یہ انتقامی کارروائی بھی ہوسکتی ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ پاکستان میں بھی مقبوضہ کشمیر جیسے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

بہرحال جو بھی محرکات ہوں، ایک بات عیاں ہے کہ دہشت گرد اور ان کے سہولت کار کراچی میں موجود ہیں اور وہ جہاں جی چاہے، کارروائی کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ کراچی آپریشن کو شروع ہوئے دو سال سے اوپر ہو چکے ہیں۔ جبکہ ابتدا میں خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ آپریشن چند ہفتوں پر ہی محیط ہوگا، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ سندھ حکومت کی طرف سے رینجرز کو تین تین ماہ کی توسیع دینا مذاق ہے۔ صوبائی حکومت توسیع دے کرسمجھتی ہے کہ وہ وفاق پر بہت بڑا احسان کر رہی ہے۔ اگر رینجرز کے اختیارات کا تعین کرتے ہوئے ”تاضرورت” میعاد مقرر کردی جاتی تو اچھا ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ آپریشن کی طوالت اور میعاد و اختیارات میں توسیع نہ کرنے سے دہشت گردوں سے ”مہربانی” کا سلوک ہو رہا ہے۔

Rangers

Rangers

اگرچہ رینجرز آپریشن سے کراچی میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہوئی ہے۔ برسوں بعد پہلی بار گزشتہ دو عیدیں اطمینان و سکون سے گزریں۔ یہ درست کہ کراچی کی صورت حال کو پولیس، جو زیادہ تر سیاسی ہے، کنٹرول کرنے سے قاصر ہوگئی تھی، بلکہ ایسے واقعات بھی ہوئے، جن میں پولیس اہلکار ملوث تھے۔ بہرنوع صوبائی حکومت کو رینجرز کی جگہ لینے کی تیاری کرنی چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پولیس اور سول اداروں کی کارکردگی بہتر بنائی جائے۔ پولیس کے شعبے میں تطہیر کی ضرورت ہے۔ پولیس کی بھرتی، تعیناتی سمیت تمام امور میرٹ پر انجام پائیں۔ اس ادارے کو مکمل غیر سیاسی بنا دیا جائے۔ پھر انٹیلی جنس کے شعبوں کو بھی متحرک بنانا ہوگا۔ اسی طرح ان اداروں کی بھی جدید خطوط پر تشکیل کریں۔ ان اداروں کا کیا فائدہ اگر ریاستی اہلکار بھی محفوظ نہ ہوں۔

عوام امن چاہتے ہیں، خواہ کسی ذریعے سے آئے۔ ہو سکتا ہے کہ دہشت گردی کے اس واقعہ کا محرک خوف و ہراس پھیلانا ہو؛ تاہم ملک دشمنوں کی یہ آرزو پوری نہیں ہوگی۔ رینجرز پہلے سے زیادہ جوش اور ولولے کے ساتھ اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں۔ ایسے واقعات ان کے عزم و استقلال پر اثرانداز نہیں ہوسکتے۔ اسی طرح کراچی کے شہری پورا یقین رکھتے ہیں کہ رینجرز کی قربانیاں رنگ لائیں گی۔ بھتہ خوروں، ٹارگٹ کلرز اور فرقہ واریت پھیلانے والوں کا یقینا قلع قمع ہو کر رہے گا۔ بہرحال انٹیلی جنس اداروں اور پولیس کو متحرک ہو جانا چاہئے۔ ورنہ کراچی کا حال تو یہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت کے دفتر سے اسلحے کی بوریاں برآمد ہوئی ہیں۔

سیاسی جماعت اور اسلحہ ؟ وزیراعظم نواز شریف نے بجا طور پرفوجی گاڑی پر حملے کا نوٹس لیتے ہوئے بروقت ہدایت کی ہے کہ دہشت گردوں کو فوری پکڑاجائے۔ انہوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا ہے کہ امن دشمنوں کا خاتمہ کریں گے۔ آپریشن کو پٹڑی سے نہیں اترنے دیں گے۔ تازہ سانحہ آپریشن کو سبوتاڑ کرنے اور پٹڑی سے اترنے کی کوشش ہی تو ہے۔ توقع ہے کہ پولیس اور ایجنسیاں ملزموں کا جلد ازجلد سراغ لگانے اور انہیں گرفتار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ مجرموں کو عبرت ناک سزا ملنی چاہیے۔ یہ لوگ جو بھی ہیں، ملک و قوم کے دشمن ہیں۔ انہیں کیفرکردار تک پہنچانا ضروری ہے۔

Syed Tauqeer Hussain Zaidi

Syed Tauqeer Hussain Zaidi

تحریر : سید توقیر زیدی