محترمہ فاطمہ جناح

 Fatima Jinnah and Quaid e Azam

Fatima Jinnah and Quaid e Azam

تحریر: عبداللہ نورانی
مادر ملت ، خاتونِ پاکستان، آنجہانی محترمہ فاطمہ جناح ٣٠ جولائی ١٨٩٣ کے دن اپنے والد جناح پونجا اور والدہ مٹھی بائی کے رہائشی مکان وزیر مینشن کراچی میں پیدا ہوئیں، فاطمہ جناح اپنے بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹی تھیں، ان کے بھائی محمد علی جناح، احمد علی، بندے علی، رحمت علی اور ان کی بہنیں مریم بائی، اور شیریں بائی ہیں۔جناح پونجا گجراتی تاجر تھے، قائد اعظم کو محترمہ فاطمہ جناح سے خصوصی انسیت تھی، اسی لئے ہمیشہ سے انہوں نے فاطمہ جناح کی تعلیم و تربیت پر ذاتی طور پر بھی توجہ دی، ابتدائی تعلیم باندرے کنونٹ سے حاصل کر کے ١٩١٩ میں انہوں نے جامعہ کلکتہ میں داخلہ لیا اور ١٩٢٣ میں ڈینٹل میڈیکل کی تعلیم مکمل کی، تعلیم مکمل کرنے بعد انہوں نے بمبئی میں اپنے ذاتی کلینک کا آغاز کیا۔فروری ١٩٢٩ میں قائد اعظم کی زوجہ (مریم) رتن بائی کے انتقال کے بعد انہوں نے اپنا کلینک بند کردیا اور ہمیشہ کے لئے اپنے بھائی کے پاس رہائش اختیار کرلی۔

قائد اعظم اکثر اپنی بہن محترمہ فاطمہ جناح کے بار ے میں کہتے تھے کہ میری بہن فاطمہ میرے لئے روشنی کی کرن ہے، میں جب بھی کہیں سے واپس گھر میں داخل ہوتا تومیری ساری بیماری اور پریشانی میری بہن کے سامنے ختم ہوجاتی اور میں تازہ دم ہوجاتا۔
محترمہ فاطمہ جناح قائد اعظم کی رفیق خاص، مشیر، اور پاکستان بنانے میں کی تحریک میں وہ جناح کی طرح سے ہی بانی ہونے کا حق رکھتی تھیں، محترمہ فاطمہ جناح اعلیٰ پائے کی سیاست دان اور زیرک فیصلہ ساز تھیں، محمد علی جناح اکثر اہم مسائل پر نہ صرف ان سے مشورے لیتے بلکہ قائد اعظم کے سیاسی زندگی میں جتنے بھی بیانات اور تقاریر جاری ہوئیں محترمہ فاطمہ جناح انہیں بغور مشاہدہ کرتیں، ان میں سے بعض نقاط پرسنجیدہ بحث کرتیں اور پھر قائد اعظم ان پر نظر ثانی کرتے اور اپنے استعمال میں لاتے۔محترمہ فاطمہ جناح نے پاکستان کے معرض وجود میںا نے کے بعد خود کو سیاست سے دور کردیا اور سماجی بہبود کے کاموں میں خود کو زیادہ مصروف کرلیا، انہوں نے نہ صرف اہم تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھی، بلکہ خواتین کے حقوق کے لئے بھی ادارے قائم کئے، پاکستان کی تاریخ میں ان سے زیادہ اہم خاتون آزادی سے لے کر اب تک کوئی نہیں ثابت ہوسکی، محترمہ فاطمہ جناح نے بہت کم وقت میں اپنے سماجی کاموں کو جال پورے ملک میں پھیلا دیا اور ان کی زندگی کے کسی بھی موقعے پر ان کی شہرت اور قائد اعظم سے وابستگی ڈھکی چھپی نہیں رہی، وہ دنیا کے سب سے بڑے مسلم ملک کے کڑوڑوں دلوں کی دھڑکن تھیں، اور ان کا دروازہ ہمیشہ سب کے لئے کھلا رہتا تھا۔

١٩٦٠ کی ابتداء ان کی زندگی میں ایک نیا رخ لے آئی ، وطن عزیز جنہیں انہوں نے اپنے بھائی محمد علی جناح کے کے ہاتھوں بنتے ہوئے دیکھا تھا ، اس وطن پاک پر خودسر اور لا دین بھیرئیے مسلط ہو چکے تھے، قادیانی ملک کے اہم ترین شعبہ جات پر قابض ہو چکے تھے، اور ملک میں آئین مقدس کو پامال کر کے معطل کردیا گیا تھا، ایسے میں پاکستان پر ایک ڈکٹیٹر اپنے مارشل لاء کو نافذ کرچکا تھا، ملک کی تمام سیاسی جماعتوں اور ان کی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی تھی، میڈیا اور دیگر اہم ترین اداروں کو مارشل لاء کے تسلط میں دے دیا گیا تھا، کوئی بھی مارشل لاء کی پالیسیوں پر اف تک نہیں کہ سکتا تھا، فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کشمیر کے معاملہ پر انڈیا سے نرم روی اختیار کئے ہوئے تھے، سندھ طاس معاہدے پر انڈیا کے آگے ہتھیار ڈال دئے گئے تھے اور آج تک پاکستان کے ساتھ ہونے والی غیر منصفانہ پانی کی تقسیم میں کہیں نہ کہیں جنرل ایوب خان کے مارشل لاء کے اثرات کارفرما ہیں،محترمہ فاطمہ جناح پھر سے سیاسی منظر عام پر آچکی تھیں، اور انہوں دبائے ہوئے، غمزدہ عوام کو پھر سے سہارا دیا اور جنرل ایوب کے خلاف باقائدہ لائحہ عمل پیش کر کے اپنی سیاسی جدوجہد تیز کردی۔

Fatima Jinnah

Fatima Jinnah

پاکستان کی تاریخ میں امام شاہ احمد نورانی سے پہلے ایک محترمہ فاطمہ جناح ہی تھیں جنہوں نے سب سے آمرانہ اور غاصبانہ طریقہ حکومت کی مخالفت کی اور جنرل ایوب کو عوامی جلسوں میں ڈکٹیٹر کا نام دیا،انہوں نے کہا کہ جنرل ایوب خان نے انڈیا کو سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرنے دی اور دریائوں کی تقسیم انڈیا کے حوالے کردی، انہوں نے مغربی پاکستان کے ایک کونے کراچی سے مشرقی پاکستان میں چٹاگانگ تک اپنے سیاسی دوروں کا آغاز کیا اور ان کی ٹرین کو فریڈم اسپیشل کا نام دیا گیا، ان کے اولین جلسوں میں ٢٥٠٠٠٠ کے قریب شرکاء جمع ہوتے تھے، اور ان میں ہر دوسرے دن تیزی آتی گئی، محترمہ فاطمہ جناح نے قصبے قصبے، گلی گلی ، شہر شہر میں دورے کئے اور جلسے منعقد کئے گئے، مغربی پاکستان کے دورے میں صرف ڈھاکہ سے چٹاگانگ تک کے سفر میں ٹرین کو بایئس ٢٢ گھنٹے لگ گئے، ٢٩٣ میل کے طویل ترین راستے پر قطار در قطار لوگ مسلسل دن رات کھڑے رہے، ٹرین جس بھی کسی اسٹیشن یا قصبہ پہنچتی تو لوگ زنجیر کھینچ کو ٹرین روک دیتے، محترمہ فاطمہ جناح سے درخواست کی جاتی کہ وہ تقریر کریں اور لوگوں سے ایک گھڑی بھر کے لئے ہی مل لیں، جنرل ایوب خان ان تمام باتوں سے ڈر چکے تھے، وہ محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف پروپگینڈے کے لئے فوج سمیت تمام سیکورٹی ایجنسیز اور تمام اہم اداروں کو استعمال میں لا رہے تھے۔

محترمہ فاطمہ جناح صرف اپنے بھائی محمد علی جناح کے لئے ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے لئے روشنی کی کرن ، نور کا ہالہ اور عظم و استقلال کا پیکر تھیں، محترمہ فاطمہ جناح کبھی تھکی نہیں تھی اور نہ وہ کسی کے آگے جھکی تھیں۔١٩٦٥ کے پرآشوب دور میں جب کہ ملک میں ہر طرف افراتفری کا عالم تھا، حالات دن بدن سنگین تر ہوتے جا رہے تھے اور اس وقت کے آمر جنرل ایوب خان کرسی نشینی کے واسطے کسی بھی صورت اقتداد عوام کو منتقل نہیں کرنا چاہتے تھے۔ جنرل ایوب کی طرف سے ملک میں صدارتی الیکشن کی تاریخ دی گئی، جنرل ایوب نے پہلے آئین میں ترمیم کی کہ وہ صدارتی الیکشن کروانے کے بعد جب تک نئے صدر منتخب نہیں ہو جاتے ہیں تب تک خود جنرل ایوب ہی صدر رہینگے، پھر الیکشن کی پالیسی کا اعلان کیا، ایک طرف تمام عوامی جمہوری جماعتوں کے طرف سے متفقہ طور پر جس امیدوار کو منتخب کیا گیا وہ قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح تھیں اور دوسری طرف ملک کے بدنام زمانہ جنر ل ایوب خان۔پاکستان کی تاریخ میں شائد اب تک ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایک ہی صدارتی امیدوار کے نام پر ملک کی تمام چھوٹی بڑی جماعتیں متفق ہو جائیں۔

اس وقت محترمہ فاطمہ جناح ملک پاکستان کے دونوں حصوں میں یعنی مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں یکجا مشہور تھیں، وہ ملک کے ہر بچے، جوان، مرد و عورت کے دل کی دھڑکن تھیں، دنیا کے تمام بڑے اخبارات، تمام بڑے تجزیہ نگار، سیاسی مندوبین اور عوامی جوش وخروش ان کی جیت کو یقینی قرار دے چکا تھا، ٧١ سال کی خاتون، محمد علی جناح کی بہن محترمہ فاطمہ جناح نے پھر سے قائد اعظم کی یاد تازہ کردی تھی، ایسا سماء بندھ گیا تھا کہ جیسے مسلم لیگ کا پرانا دور ہو، ایک طرف گاندھی اور دوسری طرف جناح، جمہوریت کی علمبردار جتنے بھی ہیں شائد وہ محترمہ فاطمہ جناح کو ڈر اور خوف کی وجہ سے سامنے نہ لا سکیں مگر قائد اعظم کے سچے جانثار محترمہ فاطمہ جناح کے بھی جانثار تھے۔

General Ayub Khan

General Ayub Khan

اتخابات ٢ جنوری ١٩٦٥ کے دن رکھے گئے، ابتدائی اعلانات اور نتائج کے مطابق محترمہ فاطمہ جناح مشرقی پاکستان میں جنرل ایوب کو مکمل شکست ِ فاش دے چکی تھیں، مغربی پاکستان میں کراچی، اندرونِ سندھ، بالائی پنجاب، اور صوبہ سرحد میں بھی آدھے سے زیادہ شہروں میں محترمہ فاطمہ جناح مکمل طور پر جیت چکی تھیں، مگر دوپہر اور شام کے نتائج میں فوج اور ایجنسیوں کی طرف سے کی جانے والی دھاندلی، غلط نتائج کے اندراج، اور الیکشن آفسس پر قبضے کر کے نتائج بدل دئے گئے، قائد اعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو پاکستان کی پاک صاف آرمی نے جنرل ایوب کی کرسی کے لئے ہرا دیا، اخبارات، جرائد، میڈیا، صحافی برادری، اور دیگر شعبہ ذرائع عاملہ کے لوگوں کو یا تو قید کردیاگیا، یا انہیں دھمکایا گیا، اور تمام خبروں کو سینسر کردیا گیا، جنرل ایوب خان نے ملک کے تعلیمی اداروں کو تعلیمی قانون کی تبدیلی کا جھانسا دیا، بعض صحافی طبقے کو صحافت میں ذاتی نوعیت کے فائدے کا جھانسا دیا، کاروباری حضرات کو ترسیل تیز کرنے کا موقعے فراہم کئے، اور محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف اخلاقی، نازیبا اور خاندانی طور پر بدنام کرنے کے لئے اخبارات کا فائدہ اٹھایا، رہی سہی کسر درباری علماء سو ء نے ادا کی۔

ان علماء نے اپنی مسند فتویٰ نویسی کو اللہ کی رضا کے لئے نہیں بلکہ جنرل ایوب کے خوشی کے لئے استعمال کیا، اور اس وقت کے بدترین اور بدبخت علماء سوء نے محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف فتویٰ جاری کیا اور کہا کہ کوئی عورت کسی اسلامی ملک کی حکمران نہیں بن سکتی ہے۔ملک میں نافذ العمل فوجی قانون اور اس کے زیر اثر تمام ہتھکنڈے محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف استعمال کئے گئے،، الیکشن کے دوران بعض مقامات پر محترمہ فاطمہ جناح کو نامزد کرنے والی کل جماعتی اتحاد کے سینکڑوں کارکنوں کو عین الیکشن کے دن گرفتار کیا گیا، اس کے ساتھ مشرقی پاکستان میں ہونے والے مارچ اور جلسوں میں ایوب خان کے ہونہار سپاہیوں نے اسکول اور کالجز کے طلبہ پر گولیاں چلائیں،الیکشن سے ایک ہفتہ پہلے ملک کے دونوں حصوں میں ہفتہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح منایا گیا،ٹائم میگزین کے مطابق جب جرنل ایوب نے کہا کہ میں ملک میں جمہوریت نافذ کرونگا تو اس وقت فاطمہ جناح نے اسے للکار کر کہا کہ کونسی جمہوریت؟ ایک شخص کی جمہوریت یا پھر پچاس افراد کی جمہوریت؟

ملک میں ایک بار پھر ظالم و جابر آمر اب اپنے خود ساختہ بنائے گئے صدارتی آئین کے تحت ملک کا صدر بن چکا تھا، ایک ایسا آمر جس نے محترمہ فاطمہ جناح کو امریکی اور انڈین ایجنٹ قرار دیا، حالانکہ ایوب دور میں کئی بار امریکہ سے بلین ڈالر امدار پاکستانی جرنیلوں کے کشکول میں ڈالی گئی تھی، مگر جرنیلوں کو نمک حلال زرخرید غلام کبھی بھی میڈیا میں محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف جنرل ایوب خان کے کئے گئے ظلم آنے نہیں دیتے ہیں، الیکشن کے بعد ملک کے حالات پہلے سے بھی زیادہ ابتر ہوگئے، ملک میں پھیلی ہوئی بدامنی، افلاس ، بدحالی، عوامی جدجہد پر پابندی، سیاسی جماعتوں اور ان کی سرگرمیوں پر پابندی، حالیہ انتخابات میں ہونے والی دنیا کی سب سے بڑی دھاندلی، عوامی غم و غصہ، ملک کے تمام اداروں اور ذرائع پر صدارتی محل کا قبضہ اور امریکی ایڈ کی بھرمار نے ہماری عزت کہیں بھی نہیں چھوڑی، ایسے میں ہمارے سب سے بڑے دشمن ملک نے جنگ کے لئے ماحول سازگار دیکھتے ہوئے پاکستان پر حملہ کردیا، ہم نے جنگ جیتنے کے باوجود بھی اتنا نقصان اٹھایا کہ ہم سنبھل نہ پائے، ١٩٧١ کے سانحہ نے ہمیں تہہ بالا کردیا، جنرل ایوب نے اپنی صدارت چھوڑنے سے پہلے ہی جنرل یحی سے کہا کہ وہ فوجی طاقت کا استعمال کر کے ملک پر پھر سے نیا مارشل لاء نافذ کردیں، یعنی مارشل لاء پر مارشل لاء نافذ کردیا۔محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی شہادت سے کچھ عرصہ پہلے عید الاضحی کے موقعہ پر قوم کے لئے ایک آخری پیغام دیا۔

USA Aid

USA Aid

‘فوری طور پر جو مقصد آپ کے سامنے ہے، وہ یہ ہے کہ ملک میں موجود مسائل کا مقابلہ کریں، اور ملک ِ پاکستان کو پھر قائد اعظم محمد علی جناح کی واضح ہدایت کے مطابق سے صحیح راستے پر لے آئیں، پاکستان سر زمین کے پرچم تلے آگے بڑھتے جائیں، اور اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھیں، اپنے مقصد میں یقین محکم رکھیں، اور تنظیم یعنی اصول قائم رکھیں، اپنے مقصد کو کامیابی سے حاصل کریں، ایک روشن اور تابناک مستقبل آپ کے جوش و خروش اور عمل کا منتظر ہے، یہ با ت ہمیشہ یاد رکھیں کہ بزدل موت سے پہلے ہی کئی بار مرجاتے ہیں، بہادر اور جری انسان موت کا ذائقہ صرف ایک بار ہی چکھتا ہے، میدان ِ عمل میں جدجہد کرتے رہنا ہی اصل راستہ ہے، اور حیات ِ جاویداں ہے، اور یہی راستہ خوددار لوگوں کو جچتا ہے، اور بالخصوص مسلم قوم کو۔
٩ جولائی ١٩٦٧ کی رات محترمہ فاطمہ جناح کو ان کے گھر میں شہید کردیا گیا، ان کی شہادت کی خبر کو جنرل ایوب کی ایماء پر دل کے دورے کی وجہ بتایا گیا، محترمہ فاطمہ جناح کی شہادت کے ایام میں بعض لوگوں کے دلوں میں یہ حسرت سمائی کہ اس حادثے کی تفتیش کروائی جائے، اسے قانون ماہرین کے سامنے رکھا جائے، مگر اس وقت کے غیر آئینی صدر آمر جنرل ایوب نے پوری قوت سے اس معاملہ کو دبا دیا، محترمہ فاطمہ جناح کے بھانجے اور شیریں جناح کے صاحبزادے اکبر بھائی پیر جی جو اس وقت شہادت کی وجہ سے پاکستان آئے ہوئے تھے ، جب ٢٠٠٣ میں ایک بار پھر پاکستان آئے تو انہوں نے اس معاملہ کو اٹھایا مگر جنرل ایوب کی آمرانہ اولاد جنرل مشرف نے اس معاملہ کو پھر سے دبا دیا، محترمہ فاطمہ جناح کی شہادت کے بعد حکومت پاکستان جو کرسکی وہ بس ایک مقبرہ کی تعمیر تھی اور پھر محترمہ فاطمہ جناح کو تاریخ کے بند دریچوں میں قید کردیا گیا، اور ظلم یہ کہ ان کے حوالے سے تمام کتابیں اور تاریخی مواد سب کچھ ختم کردیا گیا۔

تحریر ۔۔۔ عبداللہ نورانی