تحریر: ڈاکٹر میاں احسان باری پرویز رشید کہتے ہیں کہ پی پی پی کی حکومت کشمیر کا ترقیاتی فنڈ 300 ارب روپے ہڑپ کر گئی ہے اور سندھ میں بھی مکمل کرپشن کر رہی ہے ۔کراچی کا اربوں کا فنڈ بھی ہضم ہو چکا ہے اور وہاں پانی تک کی بھی کمی ہو چکی دوسری طرف نواز شریف کے صاحبزادے کھربوں روپے باہرپانامہ لیکس میں بھجوا چکے ہیں ۔زرداری کے سرے محل،وکی لیکس اور سوئس اکائونٹس میں جمع کھربوں روپوں کا کیا بنایہ معمہ بھی ابھی تک حل نہیں ہو سکا کہ عمرانی اے ٹی ایم کارڈز نے مال باہر زیادہ بھجوا رکھا ہے یا باریاں لگانے والے سیاستدانوں نے؟یوسف گیلانی اور راجہ رینٹل اربوں روپے ڈکار کر بھی اب تک بڑھکیں لگارہے ہیں کہ کوئی ہے توہمیں پکڑ کر دکھائے شہباز شریف کہتے ہیں کہ ایک فائل ہی کھل گئی تو باپ بیٹا لندن یا دبئی بھاگ جائیں گے۔زرداری جواب آن غزل دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر سانحہ ماڈل ٹائون کی فائل کھل گئی تو دونوں بھائی سیدھا پھانسی گھاٹ جائیں گے۔جتنے منہ اتنی باتیں ہیں ایک دوسرے کے لتے لیے جارہے ہیں اور اقتداری کرسی کی برقراری اور اس کی چھینا جھپٹی کی جنگ تیز تر ہوتی جارہی ہے”باہروں رولا پائی جائو ،اندروں مال کھائی جائو”کوئی چانے چینی اور مرچوں کی ملوں اور موبل آئل “پرانے کو نیا”کرنے والوںکوپوچھتا نہیںکہ وہ کیا کر رہے ہیں؟
ان کا دنیا و مافیا سے بھی علیٰحدہ نظام چل رہا ہے اور کوئی رکاوٹ ڈال ہی نہیں سکتا سب کی آنکھوں میں دھول ڈالے ہوئے ہیں۔عقل کے اندھوں کو تو ان کی جعل سازیاں اور فراڈ بازیاں نظر آہی نہیں سکتیں۔شوگر ملوں والے گنا اونے پونے داموں خرید کررسیدیں جاری کر دیتے ہیںپھر کسان لاکھ ناک رگڑتے رہیںاور منت سماجت کریں انھیں ان کی رقوم کسی صورت نہیں مل سکتیں۔ کئی کئی سال شوگر ملوں کے چکر لگا لگا کر جوتیاں گھس جاتی ہیں مل والوں کے پاس سینکڑوں حیلے بہانے،چینی تیار ہونے پر دیں گے ،چینی حکومت لے گئی ہے۔حکومت رقم دے گی تو دیویں گے،ساری باہر ایکسپورٹ ہوگئی پچھلے سال کا بنکوںکا قرضہ لوٹانا ہے ،اب اگلے سال سہی،پھر اگلے سال ایسے ہی ڈرامے ٹھیکیداروں یا پولیس والوں کے ذریعے تقاضا کریں تو آدھا ان کی “نذر”کرنا پڑ ے گا وغیرہ۔کئی شوگر ملیں تو جانوروں کی ہڈیاں تک پیس کر ملا ڈالتے ہیںتاکہ” شیرا”ان پر جم جائے اور تیار چینی وزن دار بھی ہو۔تاکہ حرام مال زیادہ سے زیادہ حاصل ہوسکے چائے فیکٹری والوں کی تو دنیا ہی عجیب ہے وہ تو کوئی انوکھی مخلوق ہیں۔ان کو ایک بڑا کنٹینر خام چائے بھرا یک کروڑ میں ملتا ہے۔
Tea Factories
اگر سمگل شدہ چائے خریدیں تو وہی ساٹھ لاکھ میں فیکٹری تک” محفوظ پہنچ “مل جاتی ہے یعنی ” ہینگ لگے نہ پھٹکڑی رنگ چو کھا آوے”خام چائے فیکٹری کے اندر گئی ہی نہیں اور فی کنٹینر چالیس لاکھ بچ گئے یعنی دوسرے لفظوں میں چالیس لاکھ منافع ہو گیا یہ ساری بچت رقوم حکومتی ٹیکسز ہیں جو بچا لیے جاتے ہیں ۔بڑی نامی گرامی چائے فیکٹریاں روزانہ دس کنٹینرمنگوائیں تو انھیں چائے تیار کیے بغیر روزانہ کا چار کروڑ بچ رہا ماہانہ ایک ارب بیس یاچوبیس کروڑ، اس طرح سالانہ تقریباً چودہ ارب چو نسٹھ کروڑ رقوم صرف اور صرف۔ بڑے سمگلر توکوئٹہ اور پشاورسے سب سے زیادہ دور علاقہ مشہور ضلع بہاولنگر جہاں کے ڈی پی او کو معمولی شکایت پر صوبہ بدر ہونا پڑا تک بھی ساٹھ لاکھ میں کنٹینر پہنچا سکتے ہیں اور انھیں اس سودے میں پھر بھی ڈھیروںمنافع ہے اب ایسے مل مالکان کیوں نہ دیگر پراڈکٹس کی ملیں لگائیں ، بڑے شہروں میں اربوں کی جائدادیں بنائیںعلاقہ کی زمینیں دھڑا دھڑخریدیں ؟مگر صرف ایک شرط پوری کرنی پڑتی ہے کہ کسی مشیر وزیر کو “خرید کر پالنا”پڑے گا۔ خود آپ یا اپنی اولادوں کو ممبران اسمبلی بناناپڑتا ہے اور یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے جب اربوں آمدنی باہر ہی باہر سے ہوگی تو چالیس پچاس کروڑ یاایک ارب ہی سہی خرچ کرڈالنے میں کیا مضائقہ ہے؟ان کے لیے کئی وزراء “پالنا” ،بیورو کریسی و پولیس کو بذریعہ مال” باندھنا” کوئی مشکل نہ ہے پھر خواہ افیون کی چھال یا برادے سے چائے کی پتی تیار ہو ،استعمال شدہ پتی بڑے ہوٹلوں سے اکٹھی کرکے ملالی جائے توکون اور کیسے کچھ بگاڑ سکتا ہے ؟
گندا استعمال شدہ موبل آئل اکٹھا کرکے اسے اصلی جعلی روپ دیکر لاکھوں گیلن روزانہ بک سکتے ہیں تو ملاوٹ والی چائے پتی کیوں نہیں؟کیا مل والوں نے لوگوں کی صحت بحال رکھنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے؟پہلے وقتوں میں لوگ رات کو کام کی بہتات پر جاگنے کے لیے چائے پیتے تھے مگر اب چائے پئیں تو نیند کا خمار چڑ ھ جاتا ہے کسی نشہ آور چیز کی ہی ملاوٹ کی وجہ سے غالباً افیون کی چھال کی بنا پرکہ جو بالآخر خالص ترین صورت میں ہیروئن بن جاتی ہے جو کہ سیدھا موت کا پیغام اور قبرستان کا پروانہ ہے۔اس طرح سے آجکل نشہ آور چائے کے رسیابڑھتے جارہے ہیں ہر دو گھنٹے بعد نہ پئیں تو کام نہیں ہوتا کہ “چھٹتی نہیںہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی” بغیر ٹیکس دیے چائے کی خریداری پرحکومتوں کو سالانہ کھربوں کا نقصان ہوتا ہے۔چئیر مین ٹی ایسوسی ایشن شکیل جان کے مطابق چالیس فیصد چائے اسمگل شدہ استعمال ہوتی ہے۔ باہر سے زیادہ قرضے شاید انھی کی وجہ سے لینے پڑتے ہیں۔مگر جب میں بھی حکمران تو بھی حکمران تو پکڑنے والا کہاں ہو گا براجمان؟اسلئے نہ جائے ماندن ہے نہ پائے رفتن۔عام آدمی اس وقت حیران و ششدر رہ جاتا ہے جب اس کے سامنے کلو دو کلوچائے پتی اور پسے مصالحہ جات کسی دوکان کے آگے بوری بچھائے بیچنے والے مل مالکان بن جائیں واضح ہے کہ ہر سرمایہ کے پیچھے ایک دھاندلی ہوتی ہے مگر جانتے بو جھتے دیکھتے ہوئے بھی حکومتی کار پرداز پکڑ دھکڑ نہیں کرسکتے تو آدمی سر پیٹ کر کیوں نہ رہ جائیں ؟۔
Poultry business
شریفوں کے برائلر مرغیوں کے کاروبار میں بھی منافع کی شرحیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں گدھوں کا گوشت بک رہا ہے کا پروپیگنڈا کرتے رہو ۔گوشت سے نفرت ہوگی اور مرغیاں خوب بکیں گی ۔اربوں کمائو ان سے مزید پانامہ لیکس تیار کرنے میں کوئی حرج نہ ہو گا۔سرخ مرچوں کو پیسنے والی فیکٹریاں لازماً سرخ اینٹیں بھی شامل کرکے پیس ڈالتی ہیں اور لاکھوں لگا کر اربوں کما رہی ہیں ۔نئی گھی فیکٹریوں والے گھی جمانے کے لیے بطور عمل انگیز استعمال ہونے والی دھات کو تیار گھی سے نہ نکال کر گھی کو زہر آلود کرتے اور منافع سینکڑوں گنا زیادہ کمارہے ہیں۔کہ اس دھات کو گھی سے دوبارہ نکالنے کے لیے بہت زیادہ انرجی کی ضرورت ہوتی ہے ۔وہ اسے نہیں نکالتے اور ہر گھی کے ڈبے پر سینکڑوں روپے فالتو بچ رہتے ہیں۔مذکورہ فیکٹریوں کے مالکان خواہ پورے ضلع کی تمام سیٹوں پر انتخاب لڑیں،زکوة ،صدقات کی بھرمار کردیں اور اس پر اپنے فوٹو سیشن کروائیں ، لوگوں کے گھروں میں ” عیدی” کے راشن کے ٹوکرے بھجوائیں تو ان کا کیا بگڑتا ہے؟ کروڑوں کمائو چند لاکھ بانٹو تو یہ گھاٹے کا سودا تو نہ ہوا۔پھر خودایسی انویسٹمنٹ سے چھینی ہوئی اسمبلیوں کی ممبریاں یا وزارتیں کب کام آئیں گی۔
ذراکسی نے دریافت کیا کہ یہ چینی ،چائے،گھی ،مرچیںایسی کیوں ہیں تو لگے فون کھڑکنے احتساب ہو تو کیسے؟95فیصد ملیں ممبران اسمبلی ،وزیروں ،بیورو کریٹوں اور مقتدر افراد کی ہیں۔خود ہی ملزم اور خود ہی محتسب ہیں بلکہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹنے والی صورت ہے۔ڈی پی او کی صوبہ بدری سے پولیس کا مورال بھی ڈائون ہے مگر سب لوگ اس وقت کے انتظار میں ہیں جب گلی کوچوں گوٹھوں سے بھوکے ننگے ،مظلوم مفلس افراد ٹولیوں میں اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعرے بلند کرتے ہوئے تحریک کی صورت میں نکلیں گے اور پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچ کر ان نو دولتیے سرمایہ دار سود خوروں،وڈیروں کا دھڑن تختہ کرڈالیں گے۔پیسے والے نیچے گہرے دفن اور اللہ کا کلمہ اونچا بلند ہو گا۔خزانوں کو نقصان پہنچانے والوں کی منقولہ و غیر منقولہ جائدادیں قرق ہوں گی ۔حکومت خدا کی خد اکے بندوں کے ذریعے قائم ہو گی ۔