افغانستان (جیوڈیسک) افغانستان میں نیٹو اور امریکی افواج کے سربراہ جنرل جان نیکولسن نے کہا ہے کہ وہاں خود کو دولت اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے 70 فیصدجنگجو پاکستانی ہیں۔
ان کے مطابق یہ جنگجو پہلے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ تھے لیکن قبائلی علاقوں میں ضرب عضب آپریشن کے بعد یہ جنگجو افغانستان چلے گئے ہیں اور وہاں اُنھوں نے خود کو دولتِ اسلامیہ سے منسلک کیا ہے۔
مبصرین کے مطابق تحریک طالبان پاکستان کے جماعت الحرار، شہریار محسود، قاری ادریس گروپ، طمانچی ملا، مولوی فقیر اور طارق گروپ کے سینکڑوں شدت پسند دولتِ اسلامیہ سے منسلک ہوچکے ہیں۔
پینٹاگان میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جنرل جان نیکولسن کا کہنا تھا کہ ان عسکریت پسندوں میں سے اکثر تحریک طالبان پاکستان کے جنجگو ہیں اور ان کا تعلق اورکزئی ایجنسی سے ہے۔
نیٹو اور امریکی افواج کے سربراہ کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں پچھلے پندرہ برس سے شدت پسندوں کے خلاف لڑرہے ہیں تاہم اب بھی وہاں ایک درجن کے قریب مسلح گروپ فعال ہیں۔
بلوچستان میں شیعہ مخالف مسلح گروہوں جیسے لشکرجھنگوی اور جنداللہ کے بھی اکثر جنگجو دولتِ اسلامیہ کے ساتھ مل گئے ہیں
افغانستان میں دولتِ اسلامیہ کے پاکستانی جنگجووں کے بارے میں جب قبائلی علاقوں میں شدت پسندی پر گہری نظر رکھنے والے صحافی نظام داوڑ بھی اس سے متفق ہیں اور کہتے ہیں کہ جب سے اسلامک سٹیٹ اف خراسان بنی تو اس کے پہلے ہی امیر کا تعلق اورکزئی ایجنسی سے ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اورکزئی ایجنسی اور کرم ایجنسی میں پہلے بھی شیعہ مخالف جذبات پائے جاتے تھے اور یہی ان کی دولتِ اسلامیہ کے ساتھ منسلک ہونے کی سب سے بڑی وجہ بنی۔
نظام داوڑ کا کہنا ہے کہ نہ صرف قبائلی علاقوں سے بلکہ بلوچستان میں شیعہ مخالف مسلح گروہوں جیسے لشکرجھنگوی اور جنداللہ کے بھی اکثر جنگجو دولتِ اسلامیہ کے ساتھ مل گئے ہیں۔
جنرل نیکولسن کے مطابق افغانستان میں بین الاقوامی افواج افغان فوج کے ساتھ مل کر دولتِ اسلامیہ کے خِلاف کاروائیاں کررہی ہے اور ان کاروائیوں میں دولتِ اسلامیہ کے بہت سارے کمانڈر ہلاک ہوچکے ہیں۔
دوسری جانب جنوری 2015 میں پاکستان اور افغانستان میں دولتِ اسلامیہ نے پہلی ویڈیو جاری کی تھی جس میں پاکستانی شدت پسندوں کو بھی دیکھاجا سکتا تھا۔
واضح رہے کہ خود کو دولت اسلامیہ کہلوانے والی شدت پسند تنظیم افغانستان کے صوبے ننگرہار کے ضلع اچین میں ایک عرصے سے فعال ہیں اور وہاں سے افغانستان کے دوسرے علاقوں میں شدت پسند واقعات کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔