تحریر : شیخ توصیف حسین کسی ایک دیہی علاقے میں ایک کتا کنویں میں گر کر مر گیا جس کے نتیجہ میں علاقے کی عوام کا بد بو کی وجہ سے جینا دو بھر ہو گیا جس کی وجہ سے علاقے کی عوام اس بد بو سے چھٹکارا پانے کیلئے ایک عمر رسیدہ شخص کے پاس پہنچی اور اسے اپنی پریشانی سے آ گاہ کیا جسے سننے کے بعد عمر رسیدہ شخص نے بغیر سو چے سمجھے علاقے کی عوام کو کہا کہ جتنی جلدی ہو سکے مذکورہ کنویں سے پانچ سو ڈول پانی نکال کر باہر پھینک دو یہ سنتے ہی علاقے کی عوام مذکورہ کنویں کی طرف دوڑ کر پہنچی اور انہوں نے پانچ سو ڈول پانی با ہر نکال کر پھینک دیا لیکن اس کے باوجود بد دستور بد بو کا سلسلہ جاری رہا جس پر علاقے کی پریشان حال عوام دو بارہ عمر رسیدہ شخص کے پاس پہنچی اور اسے اس نئی صورت حال سے آگاہ کیا جسے سننے کے بعد عمر رسیدہ شخص نے علاقے کی عوام کو کہا کہ تم اس بار ایک ہزار ڈول پانی مذکورہ کنویں سے نکال کر باہر پھینک دو یہ سنتے ہی علاقے کی عوام نے مذکورہ کنویں سے ایک ہزار ڈول پانی باہر نکال کر پھینک دیا۔
لیکن اس کے باوجود بد بو کا سلسلہ جاری رہا اس صورت حال کو دیکھ کر علاقے کی عوام مذید پریشان ہو گئی کہ اسی دوران وہاں سے ایک دور اندیش شخص کا گزر ہوا جس نے علاقے کی عوام جو بے بسی اور لا چارگی کی تصویر بنی وہاں کھڑی تھی کو دیکھ کر کہا کہ جب تک تم اس کنویں سے مرے ہوئے کتے کو با ہر نکال کہیں دور پھینک نہیں دیتے یہ بد بو کا سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا بالکل اسی طرح ہمارے ملک کے مذہبی و سیاسی قائدین جن کے دور اقتدار میں مسا جدوں کے باہر پولیس کے پہرے فی سبیل اللہ پانی پینے کے گلاسوں کو تالے جبکہ تھانوں میں کر سیوں کو زنجیروں سے جکڑا ہوا دیکھا جاتا رہا ہے اور جو سابق فیلڈ مارشل محمد ایو ب خان کے دور حکومت سے لیکر آج تک غریب عوام کو بیو قوف بنا کر احتساب احتساب کی رٹ لگائے ہوئے ہیں احتساب کر نہیں سکتے کہ جب تک یہ اپنے اندر کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگا نہیں پاتے۔
ہاں البتہ یہ احتساب عوام کر سکتی ہے ان مفاد پرست مذہبی و سیاسی قائدین کا لیکن افسوس کہ عوام ان مفاد پرست مذہبی و سیاسی قائدین جو ملکی دو لت لوٹ کر ملک کو کنگال جبکہ عوام کو پریشانیوں سے دو چار کر نے میں مصروف عمل ہیں کا احتساب نجانے کس مصلحت کے تحت تاحال کرنے میںقاصر ہیں یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا ایک شخص جو بہت عیار اور چا لاک تھا حادثاتی طور پر ایک ملک کا بادشاہ بن گیا جس نے اپنے ہم خیال ساتھیوں جو کہ اس کی کا بینہ کے رکن تھے کے ساتھ میٹنگ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو ایسی رائے دیں کہ جس سے آپ خوشحال رہے اور میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بادشاہ بنا رہوں بادشاہ کی اس بات کو سننے کے بعد خوشامدی کا بینہ نے بادشاہ کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ملک بھر کے تمام اداروں میں راشی افسران کو تعنیات جبکہ ایماندار افسران کو کھڈے لائن لگانے کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں مہنگائی بے روزگاری بے جا ٹیکس منشیات فروشی جو ئے کے اڈوں ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافہ اشیائے خوردنوش کی قیمتوں میں اضافہ زمینوں کی خرید و فروخت پر بے جا ٹیکس تھانوں میں لا قانونیت کے ننگے رقص وغیرہ کو فروغ دیکر ملک بھر کی عوام کو لاتعداد پریشانیوں میں مبتلا کر کے ہمیں خوشحال جبکہ اپنی حکو مت کو مضبوط سے مضبوط تر بنا لیں۔
Unemployment
کابینہ کی ان باتوں کو سننے کے بعد بادشاہ نے حیران و پریشان ہو کر کا بینہ سے پو چھا کہ ملک بھر کی عوام کو لاتعداد پریشانیوں میں مبتلا کر کے آپ اپنے آپکو کیسے خوشحال اور میں کیسے اپنی حکومت کو مضبوط سے مضبوط تر بنا سکتا ہوں بادشاہ کی اس بات کو سننے کے بعد کا بینہ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو عوام خوشحال ہو کر ملک و قوم کی بہتری اور بھلائی کے بارے میں سوچے گے اور اگر آپ نے ایسا کر دیا تو عوام ملک و قوم کی بہتری اور بھلائی کے بارے سو چنے کے بجائے دو وقت کی روٹی کے حصول کی خا طر نفسا نفسی اور بے حسی کا شکار بن کر رہ جائے گی جس کا یہ فائدہ ہو گا کہ یہ عوام نہ کبھی آپ کے اور نہ ہی ہمارے بارے میں سو چے گی خواہ ہم چا ہے جتنی لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کرتے رہے یہ خاموش تماشائی بنی رہے گی۔
بالکل اسی طرح آج ملک بھر کی عوام کی طرح ضلع جھنگ کی عوام خا موش تماشائی کا کردار ادا کرنے میں مصروف عمل ہے جس کے نتیجہ میں ضلع جھنگ دن بدن تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے بجائے پسماندگی کی راہ پر گامزن ہو کر لاوارث ضلع بن کر رہ گیا ہے تاریخ گواہ ہے کہ ضلع جھنگ میں جتنے بھی مذہبی و سیاسی قائدین کے علاوہ اعلی افسران تعنیات ہوئے ظلم و ستم لوٹ مار اور ناانصا فیوں کی داستان رقم کر کے رفو چکر ہو گئے لیکن گزشتہ دنوں ضلع جھنگ میں ایک معجزہ رونما ہوا ہے اس معجزہ کو سن کر میری آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے ہوا یوں کہ میں گزشتہ روز اپنے دفتر میں بیٹھا اپنے صحافتی فرائض کی ادائیگی میں مصروف عمل تھا کہ اسی دوران ایک شخص جو بہت ہی خو ش تھا۔
میرے دفتر میں داخل ہو کر کہنے لگا کہ بھائی توصیف حسین مبارک ہو کہ ضلع جھنگ میں عرصہ دراز کے بعد غازی امان اللہ نامی ایک ایسا ڈی سی او تعنیات ہوا ہے جو نہ صرف نام کا غازی ہے بلکہ کردار کا بھی غازی ہے جو غریب اور مظلوم افراد کیلئے سایہ شجردار کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ جابر و ظالم افراد خواہ وہ ایم پی اے یا پھر ایم این اے یا پھر کوئی بااثر شخصیت ننگی تلوار کی حیثیت رکھتا ہے مذکورہ آ فیسر ظلم و ستم لوٹ مار اور ناانصا فیوں کے اس گھپ اندھیرے میں قطب ستارے کی حیثیت رکھتا ہے۔
ALLAH
مذکورہ آ فیسر کسی ذاتی مفاد کیلئے نہیں اپنے فرائض و منصبی خداوند کریم اور اس کے پیارے محبوب حضور اکرم کی خوشنودگی کی خا طر ادا کرنے میں مصروف عمل ہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ دنوں سر گو دہا روڈ پر ایک بس ڈرائیور کی مجر مانہ غفلت کے نتیجہ میں الٹ گئی جس کے نتیجہ میں تقریبا پینتالیس افراد شدید زخمی ہو گئے جہنیں فوری طبی امداد کیلئے ڈی ایچ کیو ہسپتال جھنگ منتقل کر دیا گیا جس کی اطلاع پا کر مذکورہ ڈی سی او موقع پر پہنچ کر ایم ایس و دیگر ڈاکٹروں کو ہدایت کی کہ اگر کوئی ڈاکٹر مذکورہ مضروبوں کے علاج و معالجہ میں کو تاہی کرتا ہوا پکڑا گیا تو وہ اپنے نقصان کا از خود ذمہ دار ہو گا۔
جس کے نتیجہ میں مذکورہ ڈاکٹروں نے ایم ایس کی سر پرستی میں مذکورہ مضروبوں کا علاج و معالجہ سر جوڑ کوشش سے کیا جس کے نتیجہ میں تمام کے تمام مضروب صحت یاب ہو کر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے حالانکہ اس سے قبل ایسا نہیں ہوا مذکورہ ہسپتال میں جتنے بھی مضروب آئے تھے انھیں مذکورہ ڈاکٹرز الائیڈ ہسپتال فیصل آباد منتقل کر دیتے تھے جس کے نتیجہ میں لاتعداد گھروں کے افراد راستے ہی میں دم توڑ جاتے تھے۔
بھائی توصیف حسین دیکھ لینا کہ یہ اب ٹی ایم اے جھنگ کے ایکسین اور ایس ڈی او وغیرہ کا بھی محاسبہ کریں گے کہ جہنوں نے ٹی ایم اے جھنگ کو اپنی جا گیر سمجھ کر لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے اُس شخص کی ان باتوں کو سننے کے بعد میں سو چوں کے سمندر میں ڈوب کر یہ سو چنے لگ گیا کہ مذکورہ آ فیسر واقعہ ہی ایسا ہے اور اگر واقعہ ہی ایسا ہے تو یہ ایک اوتار ہے جو معجزہ کی شکل میں رو نما ہوا ہے۔