تحریر : سید توقیر زیدی آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے چینی سفارت خانے کے زیر اہتمام پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کی 89ویں سالگرہ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کرپشن اور دہشت گردی کا گٹھ جوڑ توڑ کر رہیں گے’ پاک چین اقتصادی راہداری کو سکیورٹی فراہم کرنا ہمارا قومی عزم ہے، اس کی بروقت تکمیل کو بغیر کسی رکاوٹ کے یقینی بنایا جائے گا’ آپریشن ضرب عضب میں حاصل کامیابیوں کو مستحکم کر رہے ہیں’ ہر قسم کے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھیں گے۔ آرمی چیف اس سے پہلے بھی کئی بار دہشت اور کرپشن کے خاتمے کا عزم ظاہر چکے ہیں۔
چینی سفارت خانے کی تقریب میں اس عزم کا اعادہ دراصل پاکستان کے چینی دوستوں کو اس امر کی یقین دہانی کرانے کی ایک کوشش تھی کہ ہمارا یہ ہمسایہ ملک یہاں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے تو اس کی اس کاوش کی نہ صرف دل و جان سے پذیرائی کی جائے گی بلکہ اس سرمائے سے بننے والے اقتصادی کوریڈور کی تکمیل اور اس کی حفاظت کا پورا پورا انتظام اور اہتمام بھی کیا جائے گا۔
کرپشن اور دہشت گردی، سرمایہ کاری کے مخالف عوامل ہیں؛ چنانچہ یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ جہاں کرپشن اور دہشت گردی ہو گی، وہاں سرمایہ کاری کا پنپنا مشکل ہے۔ ا?رمی چیف کا اس تقریب میں کرپشن اور دہشت گردی کا خصوصی طور پر ذکر کرکے اس کے خاتمے کا مصمم ارادہ ظاہر کرنے کا مقصد دراصل اپنے چینی دوستوں کو یہ باور کرانا تھا کہ پاکستان ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے خصوصی اقدامات کر رہا ہے؛ فاٹا میں ضرب عضب جاری ہے’ کراچی میں مافیاز کے خلاف مسلسل تیس برسوں سے ا?پریشن جاری ہے، جبکہ بلوچستان میں بھی عسکریت پسندوں کو راہ راست پر لانے کے لیے کثیر جہتی اور کثیرالمقاصد اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ان ساری کاوشوں کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں۔
ملک میں دہشت گردی کی وارداتوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے اور کاروباری و سرمایہ کار حلقوں کا اعتماد بحال ہو رہا ہے۔ یہ خوش آئند صورت حال چینی سرمائے کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرے گی؛ البتہ کرپشن کا معاملہ ابھی پوری طرح قابو میں نہیں آیا۔ بدعنوانی کی وجہ سے ملکی معیشت پر دو نہایت منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ پہلا: سرمایہ چند ہاتھوں میں مرتکز ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے غربت اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور اس طرح دولت اور قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم ناممکن ہوتی جا رہی ہے۔
Corruption
دوسرا، مختلف طریقوں سے سرمایہ محفوظ جنتوں میں منتقل کیا جا رہا ہے’ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ زرمبادلہ کے قومی ذخائر بری طرح متاثر ہو رہے ہیں اور ملکی معیشت میں ہونے والی ترقی کے اثرات عام ا?دمی تک نہیں پہنچ رہے۔
کرپشن کی وجہ سے عالمی برادری میں ہمارے ملک کی جو سبکی ہو رہی ہے وہ اس پر مستزاد۔ یہ کرپشن کا ہی شاخسانہ ہے کہ کھربوں روپے کے ملکی و غیر ملکی قرضے حاصل کرنے کے باوجود ہمارا ملک ترقی کے اس سنگ میل کو بھی عبور نہیں کرسکا، جو اس کے بعد ا?زاد ہونے والے کئی ممالک برسوں پہلے عبور کر چکے ہیں۔
دور کیا جانا چین کی مثال ہمارے سامنے ہے، جو ہمارے بعد آزاد ہوا، لیکن ترقی کی دوڑ میں وہ دنیا کی سب سے بڑی سپرپاور کے مقابل جا کھڑا ہوا ہے؛ چنانچہ اگر ملک کو حقیقی ترقی سے ہمکنار کرنا ہے اور اسے حقیقتاً اقتصادی ایشین ٹائیگر بنانا ہے، تو سب سے پہلے بدعنوانی کا خاتمہ کرنا ہوگا، چاہے وہ کسی بھی شکل اور نوعیت کی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اس حوالے سے اقدامات حکومت کی ذمہ داری ہے، لیکن یہاں صورت حال یہ ہے کہ پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے ٹی او آرز ہی طے نہیں ہو پا رہے اور اس سلسلے میں دو اڑھائی ماہ پہلے بنائی گئی پارلیمانی کمیٹی کئی ہفتوں سے مسلسل ڈیڈ لاک کا شکار ہے۔ کچھ معاملات پر اپوزیشن اڑی ہوئی ہے تو کچھ ماننے کو حکومت تیار نہیں۔
NAB
جب دامن اور ہاتھ صاف ہوں تو پھر احتساب کا ڈر کیسا؟ لیکن لگتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن، دونوں ہی احتساب کے عفریت سے دامن بچانا اور چھڑانا چاہتی ہیں، ورنہ اب تک کرپشن کے خاتمے کے لیے کوئی نہ کوئی طریقہ تو وضع کر ہی لیا گیا ہوتا۔ کرپشن کا معاملہ اتنا گمبھیر ہے کہ اس کی روک تھام کے لیے بنائے گئے ادارے میں بدعنوانی ہو رہی ہے۔ اس کا ثبوت چیئرمین نیب کا یہ بیان ہے’ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ نیب کے اندر کرپشن کے خاتمے کے لیے نظام شروع کر دیا، نیب کے کرپٹ اور نااہل افسروں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، گزشتہ ڈھائی سال کے دوران نیب نے اپنے 83 افسروں کے خلاف کرپشن کی تحقیقات کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بدعنوانی تمام برائیوں کی جڑ ہے’ نیب نے ملک سے بدعنوانی کے خاتمہ کیلئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی پر عملدرآمد کرتے ہوئے انسداد بدعنوانی کی جامع قومی پالیسی وضع کی ہے۔ جہاں کرپشن اس قدر راسخ ہو چکی ہو’ وہاں سے اس خاتمے کے لیے ٹھوس پالیسیوں اور خصوصی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے’ لہٰذا ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کے لیے حکومت کو اپنی روش تبدیل کرنا ہو گی۔ کیا اس کے لیے بھی آرمی چیف کو ہی اقدامات کرنا پڑیں گے۔