تحریر : محمد اشفاق راجا چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ پاکستان آرمی نے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کی کمر توڑ دی ہے۔ دہشت گردوں کو بھاگنے نہیں دیں گے اور ان کا آخری حد تک پیچھا کریں گے۔ پاک فوج کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں اور آپریشن ضربِ عضب کی کامیابیوں کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردوں پر زمین تنگ ہو چکی ہے۔ شندور میلہ دہشت گردوں کے لئے پیغام ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب تعلیم و ترقی اور امن و سلامتی ملک کی پہچان ہو گی پائیدار امن کے لئے آپریشن ضربِ عضب بھرپور عزم کے ساتھ جاری رہے گا۔ امن عوام اور فوج کے تعاون سے آیا خوشی کا موقع ہو یا مصیبت کی گھڑی افواج پاکستان اپنے وطن کے دفاع اور اپنے عوام کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گی بلاخوف و خطر اپنی روایات کو جاری رکھیں گی۔ جنرل راحیل شریف نے کہا کہ پاک فوج نے سیلاب متاثرین کی مدد کی اور زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا۔ فوج کے ہیلی کاپٹروں نے سیلاب میں پھنسے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا وہ شندور میلے کی اختتامی تقریب میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے خطاب کررہے تھے۔
آپریشن ضربِ عضب کے بعد بلا شبہ پاکستان کے مختلف حصوں میں امن و امان کی صورتِ حال نمایاں طور پر بہتر ہوئی ہے۔ دہشت گردی کی وارداتوں میں بڑی حد تک کمی آ گئی ہے۔ تاہم اس آپریشن کے دوران بھی دہشت گرد بعض ایسی وارداتیں کرنے میں کامیاب ہو گئے جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے بہت سنگین تھیں اور ان کے دوررس اثرات بھی مرتب ہوئے اس سے یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف جب گھیرا تنگ ہوا تو انہوں نے مایوسی کے عالم میں آسان اہداف کو نشانہ بنانا شروع کر دیا جن میں تعلیمی ادارے اور تفریحی مقامات بھی شامل تھے آرمی پبلک سکول پشاور،چارسدہ یونیورسٹی اور لاہور میں اقبال پارک ایسے ہی اہداف تھے۔ اول الذکر دونوں وارداتوں کے دہشت گرد افغانستان سے آئے، وہیں سے انہیں مانیٹر کیا گیا اور ان کے مقامی سہولت کاروں نے اہداف تک ان کی رہنمائی کی۔
دہشت گرد یہ وارداتیں تو کر گزرے لیکن ان کے نیٹ ورک کا تیزی سے سراغ لگانے میں کامیابی حاصل کرلی گئی اور افغان سرحد کے ساتھ ایسے اقدامات شروع کر دیئے گئے کہ آمد و رفت کو باضابطہ بنا دیا گیا۔ قانونی سفری دستاویزات کے بغیر آمد و رفت روک دی گئی اور سرحد کے ساتھ سیکیورٹی گیٹ اور چیک پوسٹیں بھی بنا دی گئیں جن پر افغانستان شروع میں معترض رہا لیکن اب باضابطہ کام شروع ہو چکا ہے اور چیکنگ کے بغیر افغانستان سے لوگوں کی آمد و رفت روک دی گئی ہے جس کے بعد امید ہے کہ دہشت گردوں کے لئے پاکستان آنا اور یہاں وارداتیں کرنا آسان نہیں رہے گا۔ دہشت گرد چونکہ دنیا بھر میں اپنے طریقے تیزی سے بدلتے رہتے ہیں اس لئے دہشت گردی کی وارداتیں کم ہونے کے بعد بھی چوکس اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے اور مطمئن ہو کر نہیں بیٹھا جا سکتا۔
Karachi Terrorism
دہشت گردوں کے سلیپنگ سیلز بھی ہیں جو اچانک متحرک بھی ہو جاتے ہیں۔ کراچی میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتیں اس کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ دہشت گردی کی وارداتیں کم ہونے کے باوجود دہشت گردوں کے نیٹ ورک تباہ ہونے اور ان کی کمین گاہوں کا بڑی حد تک خاتمہ ہو جانے کے باوجود وہ اب بھی کسی نہ کسی طرح سرگرم عمل ہیں کراچی اور لاڑکانہ میں سیکیورٹی اداروں کے اہل کاروں پر باقاعدہ حملے کئے گئے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دہشت گرد منصوبہ سازی بھی کر رہے ہیں اور اس تاک میں بھی بیٹھے ہوتے ہیں کہ انہیں جب اور جہاں موقع ملے وہ واردات کر گزریں اس لئے دہشت گردوں کے بدلتے ہوئے طور طریقوں اور ان کی منصوبہ بندی ٹیکنیکس پر بھی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ بعض وارداتیں تو اس انداز کی ہوتی ہیں کہ پہلے سے ان کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہوتا حفاظتی انتظامات مکمل ہوتے ہیں ان میں کوئی رخنہ بھی نہیں ہوتا لیکن اچانک کوئی ایسی واردات ہو جاتی ہے جس کی جانب دھیان ہی نہیں گیا ہوتا، دہشت گردی کی عالمی وارداتوں کا مطالعہ کیا جائے تو فرانس میں یوم آزادی کے موقع پر ایک ٹرک ڈرائیور کی دہشت گردی اسی ذیل میں رکھی جائے گی جس نے کرائے پرٹرک لے کر ساحل پر موجود آزادی کی تقریب منانے والوں پرچڑھا دیا اور بڑی تعداد میں لوگوں کو ہلاک کر دیا۔
شندور میلہ خیبرپختونخوا کی مضبوط ثقافتی روایت کی علامت ہے یہاں ہر سال جولائی میں مشہور عالم پولو میچ ہوتے ہیں اس بار بھی یہ میلہ پوری آن بان شان سے ہوا جس کی اختتامی تقریب میں آرمی چیف نے بطور مہمان خصوصی خطاب کیا اور کہا کہ یہ میلہ بھی دہشت گردوں کے نام ایک پیغام ہے کہ دہشت گرد پاکستانی عوام کے حوصلے پست نہیں کر سکے صوبے میں زندگی کے تمام رنگ بکھرے ہوئے ہیں اور عوام خوفزدہ ہو کر اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھ نہیں گئے۔ زندگی رواں دواں ہے۔ دہشت گردوں نے عوام کا جو سفر رائیگاں کرنے کی کوشش کی تھی اس میں انہیں ناکامی ہوئی ہے۔جن دہشت گردوں نے کسی نہ کسی طور پر ابتدائی کامیابیاں حاصل کیں ان کی وجہ سے ان کے حوصلے بلند ہو گئے۔
جب حکومت نے ان کے ساتھ بات چیت کا آغاز کیا تو انہوں نے ایسے مطالبات شروع کردیئے جو کوئی ریاست قبول نہیں کر سکتی۔ انہوں نے اپنی قوت کا غلط اندازہ لگایا تھا جب ضربِ عضب کا کوڑا برسا تو ان کی طاقت کا سارا نشہ ہرن ہو گیا اور چند ہی مہینوں میں ان کی تمام تر طاقت تتر بتر ہو گئی۔ اب تک اگر آپریشن ضرب عضب جاری ہے تو یہ ان مایوس عناصر کی وجہ سے ہے جو اپنی قوت پر بے جا انحصار کرکے بے سروپا مطالبوں پر اتر آئے تھے۔ اب ان عناصر پر قابو پانے کے بعد ملک میں تعلیم اور ترقی کا نیا دور شروع ہونے کی جو نوید آرمی چیف نے سنائی ہے۔ توقع ہے یہ مرحلہ تیزی سے مکمل ہوگا اور دہشت گردی جلد قصہ پارینہ بن جائے گی۔