واشنگٹن (جیوڈیسک) ری پبلیکن پارٹی صدارتی نامزد امیدوار، ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ انھیں ڈر ہے کہ امریکی انتخاب، جس میں اب صرف تین ماہ رہ گئے ہیں، اُن کے خلاف ’دھاندلی‘ سے کام لیا جائے گا۔
مارگریٹ جرگنسن نے کہا ہے کہ وہ میری لینڈ کی منٹگمری کاؤنٹی میں کبھی یہ نہیں ہونے دیں گی، جو واشنگٹن سے منسلک کثیر آبادی والا علاقہ ہے۔
جرگنسن کاؤنٹی کے انتخابی بورڈ کی سربراہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ’’جو شخص یہ کہتا ہے کہ نظام ایسا ہے جس میں دھاندلی ممکن ہے، شاید اُنھوں نے انتخابات سے واسطہ رکھنے والے کسی منتظم کے ساتھ وقت نہیں گزارا‘‘۔
سخت مقابلے والے اِس ماحول میں انتظامی نظام پر عدم اعتماد دائیں بائیں بدمزگی کا ماحول پیدا کرتا ہے۔ ورمونٹ سے تعلق رکھنے والے سینیٹر برنی سینڈرز نے، جنھوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزدگی کے لیے ہیلری کلنٹن سے مقابلہ کیا، کہا ہے کہ پارٹی کے قومی رہنماؤں نے اُن کے خلاف کام کیا تاکہ سابق وزیر خارجہ کو نامزدگی مل سکے۔
جمہوریت کے محاذ کی اگلی صفوں پر، جرگنسن نے بتایا ہے کہ وہ گذشتہ 20 برس سے اس میدان میں ہیں، اُنھوں نے کبھی ووٹ چوری ہونے کی شکایت نہیں سنی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ امریکی ووٹروں کی تعداد کثیر ہے۔ لیکن، کسی ووٹر کی جانب سے دھوکہ دہی کا کیس ریکارڈ پر کم ہی ہے۔
تاہم، انتخابات کی حرمت کے بارے میں مباحثہ، جس طرح کہ اِس کھچاؤ والے سیاسی ماحول میں ہر چیز دکھائی دیتی ہے، وہ ترش اور مخاصمانہ انداز کی سی لگتی ہے۔
جان فورٹر کے بقول، یہ کچھ اِس طرح کی ہے، ’’ری پبلیکنز کو سکیورٹی سے متعلق زیادہ تشویش ہے؛ جب کہ ڈیموکریٹس کو رسائی کے بارے میں تشویش لاحق ہے‘‘۔ فورٹر واشنگٹن میں قائم ’ڈیموکریسی پراجیکٹ‘ کے سربراہ ہیں، جو دونوں فریق سے تعلق رکھنے والا پالیسی مرکز ہے۔
یوں لگتا ہے کہ جھگڑا ووٹروں کی فہرست اور شناخت کے قوانین کی بنا پر ہے۔
کاؤنٹی الیکشن بورڈز میں رجسٹر ہونے والے ووٹروں کی فہرستیں رکھی جاتی ہیں۔ ووٹروں کی فہرست ہمیشہ بدلتی رہتی ہے چونکہ لوگ متحرک رہتے ہیں، فوت ہوتے ہیں، شادی اور طلاق کی صورت میں نام تبدیل کرتے ہیں۔ یوں، فہرستوں کو تازہ رکھنے کا کام سال بھر جاری رہتا ہے۔
جرگنسن کے مطابق، کسی کاؤنٹی میں 10 لاکھ مکین ہوتے ہیں، اور ’’ہم ہر ماہ 30000 دستاویز کا جائزہ لیتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم سال میں صرف دو دِن کام کرتے ہیں‘‘۔