ڈرون کارروائی سے متعلق صدارتی پالیسی ہدایت نامہ جاری

Drone

Drone

واشنگٹن (جیوڈیسک) وائٹ ہاؤس نے صدر براک اوباما کی جانب سے ترتیب دی گئی ڈرون طیاروں کی دنیا بھر میں استعمال سے متعلق پالیسی جاری کر دی ہے، جس کا مقصد دہشت گردوں سے نبرد آزما ہونا ہے، جو کسی وقت صیغہٴ راز کا معاملہ رہا ہے۔ یہ بات ہفتے کے روز امریکی شہری آزادیوں سے متعلق تنظیم، ’امریکن سول لبرٹیز یونین (اے سی ایل یو) نے بتائی ہے۔

اٹھارہ صفحات پر مشتمل اِس دستاویز میں ڈرون کے معاملے پر ’’صدارتی پالیسی ہدایت نامے‘‘ کی فہرست دی گئی ہے، جس میں بغیر پائلٹ کے طیارے کے استعمال سے شہری ہلاکتوں کو کم سے کم کرنے سے متعلق مناسب تحفظات کو اجاگر کیا گیا ہے۔
اس میں امریکی فوج سے کہا گیا ہے کہ وہ مہلک ہتھیار تبھی استعمال کریں جب یہ بات ’’بالکل یقینی‘‘ ہو کہ نشانہ خطا نہیں ہوگا، کہ ہدف دہشت گرد ’رینج‘ میں ہے اور یہ کہ کوئی غیر لڑاکا فرد ہلاک و زخمی نہیں ہوگا۔

وہ صحافی جنھوں نے یہ پوری دستاویز پڑھی ہے بتایا ہے کہ اس میں وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے عملے کو، جو کانگریس کی نظرثانی سے مستثنیٰ ہیں، قابل ذکر کردار دیا گیا ہے کہ وہ مخصوص دہشت گردوں کی ہلاکت کے لیے نشانہ بنانے سے متعلق ضابطوں پر عمل کرا سکیں۔

مشتبہ دہشت گرد کو ہلاک کرنے یا پکڑنے کی انتظامی کارروائی، جو عام طور پر ’سی آئی اے‘ یا امریکی فوج کرتی ہے، اُس کی قومی سلامتی کونسل نظر ثانی کرتی ہے۔ ہفتے کے روز جاری کیے گئے دستاویزات میں اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ حملے کے کسی پروگرام پر غور کرنے کے لیے کابینہ کے دیگر محکموں اور اداروں کے نمائندے بھی اجلاس بلا سکتے ہیں، لیکن حتمی فیصلہ صرف صدر کی قومی سلامتی کونسل کرے گی۔

عدالتی حکم
چھ ماہ قبل ایک وفاقی عدالت نے حکومت کو حکم دیا تھا کہ پالیسی دستاویز کا انکشاف کیا جائے، جسے امریکی حکام کی اعلیٰ سطح پر غیر رسمی طور پر ڈرون کے استعمال کا ’پلے بُک‘ کہا جاتا ہے۔ یہ عدالتی حکم ’اے سی ایل یو‘ کی جانب سے پیش کردہ ’فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ‘ کے فیصلے میں درج ہے جسے اس قانونی مقدمے کے جواب میں پیش کیا گیا تھا۔

ہفتے کے روز جاری ہونے والی دستاویز کی ہیئت کو ’’تیار کرنے‘‘ یا ترتیب دینے کا عمل قرار دیا گیا ہے، جس میں اُن خصوصی تفاصیل کو جاری نہیں کیا گیا، جن کا جاری کیا جانا امریکی قومی سلامتی کے مفاد میں نہ ہوگا۔

اوباما انتظامیہ نے 2013ء میں ڈرون کے استعمال کی اپنی پالیسی کے حقائق نامے کا اختصار جاری کیا ہے۔ لیکن، ہفتے کے روز جاری کی گئی تفصیل میں وہ قانون و ضوابط پیش کیے گئے ہیں جن پر حکومت عمل درآمد کرتی ہے، اُس وقت جب نشانہ بنا کر ہلاک کرنے سے متعلق احکامات دیے جاتے ہیں، اور غیر ملکی سرزمین پر مشتبہ دہشت گردوں کو پکڑنے کے لیے کہا جاتا ہے۔

’اے سی ایل یو‘ کے قانونی ضوابط کے معاون سربراہ، جمیل جعفر نے ’’صدارتی پالیسی ہدایت نامے‘ کے اجرا کا خیر مقدم کیا ہے۔ اُنھوں نے کہا ہے کہ اِن دستاویز کی مدد سے کسی فرد کے خلاف نشانہ بنا کر مہلک ہتھیار کا استعمال یا پکڑنے کے عمل سے متعلق پالیسی کا معیار اور فہم واضح ہوتا ہے۔

ایک بیان میں جعفر نے کہا ہے کہ ’’اسے جاری کرنے سے قانون کی پاسداری اور انسداد دہشت گردی کی حکومتی پالیسیوں کی دانائی پر جاری مباحثے میں آگہی کا پہلو روشناس ہوگا‘‘۔

رائٹرز کے مطابق، امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان، نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ ’’صدر نے اِس بات کی نشاندہی کی ہے کہ انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے حوالے سے، اور یہ کہ ان پر کس طرح عمل درآمد کیا جاتا ہے اور اُن کے نتائج کیا ہیں، اس بارے میں حکومت ِامریکہ امریکی عوام کے سامنے حتی الوسع شفافیت سے کام لے‘‘۔

قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نے مزید کہا کہ ’’ہمارے انسداد دہشت گردی کے اقدامات مؤثر اور قانونی ہیں اور اُن کے جائز ہونے کا ثبوت اِن اقدام کے بارے میں عوام کو زیادہ اطلاعات دینے سے؛ اور ساتھ ہی اِن پر عمل درآمد سے متعلق واضح معیار ترتیب دینے سے ہوگا‘‘۔

انتظامیہ نے کہا ہے کہ ماضی میں پُرتشدد انتہا پسند گروپوں سے نمٹنے کے سلسلے میں پاکستان، افغانستان اور یمن جیسے ملکوں میں ضروری ہتھیار کے طور پر بغیر پائلٹ کے طیارے استعمال ہوئے۔ کچھ ڈرون حملوں میں شہری ہلاک ہوئے، جو دراصل اہداف پر نہیں تھے، جو مقامی سطح پر برہمی کا باعث بنے۔

ایک ماہ قبل، وائٹ ہاؤس نے کہا تھا کہ ڈرون حملے اور دیگر فضائی کارروائیوں کے نتیجے میں، جن کا اوما انتظامیہ نے جنوری 2009ء سے آغاز کیا، 64 اور 116 کے درمیان شہری ہلاک ہوئے۔

امریکی اہل کاروں نے کہا ہے کہ 2015ء کے آخر تک امریکی افواج نے 473 فضائی کارروائیاں کیں، جن میں زیادہ تر ڈرون استعمال کیا گیا، جس دوران 2600 کے قریب دہشت گرد ’’لڑاکے‘‘ ہلاک کیے گئے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ امریکی فضائی کارروائیوں کے نتیجے میں ہونے والی شہری ہلاکتوں کا شمار گھٹا کر بیان کیا گیا ہے، چونکہ انتظامیہ کی رپورٹ میں افغانستان، شام یا عراق میں ڈرون حملوں کو شامل نہیں کیا گیا۔

سنہ 2013 میں، امریکی سینیٹر، لِنڈسی گراہم نے اپنی جمع کردہ اطلاعات کے مطابق، بتایا تھا کہ امریکی ڈرون حملوں میں 4700 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔