تحریر : رقیہ غزل نوے کی دہائی میں جب بچوں کا اغوایک معمہ بن چکا تھاتو ایسے میں ایک روز 30 دسمبر 1999 میں جاوید اقبال نامی ایک شخص نے اردو اخبار کے دفتر میں جا کر کہا کہ ”میں جاوید اقبال ہوں ،سو بچوں کا قاتل ہوں، مجھے نفرت ہے اس دنیا سے ،مجھے اپنے کئے پر کوئی شرمندگی نہیں ہے اور میں مرنے کے لیے تیار ہوں ،مجھے سو بچوں کو قتل کرنے پر کوئی افسوس نہیں ہے ”۔ اس کے مطابق وہ پہلے بچوں کو زیادتی کا نشانہ بناتا تھا اور پھر لاش کو تلف کرنے کے لیے تیزاب میں ڈال کر دریائے راوی میں بہا دیتا تھا۔اس کی درندگی کا نشانہ بننے والے بچوں کی عمریں 6 سے 16سال کے درمیان تھیں۔ مزید تفتیش کے دوران بدنام زمانہ جاوید اقبال نے اپنے اس جرم کی وجہ پولیس دشمنی بتائی کہ پولیس نے اس کو بچے سے زیادتی کے جرم میں زدوکوب کیا تھااور بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا تھا جس میں وہ معذور بھی ہو گیا تھا جبکہ اس کا کوئی قصور نہیں تھا اس نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ وہ سو بچوں کی مائوں کو رلائے گا کیونکہ اس کی ماںبھی روئی تھی اس لیے وعدہ پورہ ہوتے ہی آج میں نے خود کو پیش کر دیا ہے۔
جبکہ میں مزید بچوں کو مار سکتا تھا ملکی تاریخ کے اس سفاک قاتل پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے جج نے اسے ویسے ہی سزا دینے کا حکم دیا تھا جیسے وہ بچوں کو مارتا تھا مگر یہ حکم عدالت کے خلاف قانون ہونے کیوجہ سے اس ملزم کو سزائے موت سنائی گئی تھی جس کے ایک سال بعد اس سفاک بے رحم قاتل اور اس کے مبینہ ساتھی نے جیل میں خودکشی کر لی تھی ۔اس شخص کی اغواکاری کے طریقوں پرتحقیقات کے بعد یہ حقیقت سامنے آئی کہ اس نے بچوں کو راغب کرنے کے لیے ایسے پیشے اختیار کئے جو کہ بچوں کے لیے کشش رکھتے تھے جیساکہ پہلے ویڈیو گیمز کی دوکان کھولی ،پھر فش ایکیوریم اور جم بھی کھولا تھاجس میں یہ مختلف ہتھکنڈوں اور پینتروں سے بچوں کو پھنساتا اور پھر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرتا تھا جب یہ اعتراف جرم منظر عام پر آیا تودنیا ششدر رہ گئی ویسے حیران کن تو ہے کہ ایک انسان سفاکی میں اس حد تک پہنچ چکا تھا مگر کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی آخر کیا وجہ ہے کہ پولیس اور انتظامیہ کی ناک کے نیچے سب ہوتا ہے مگر پتہ تب چلتا ہے جب پانی سر سے اونچا ہو جاتا ہے۔
قارئین کرام! آپ سوچ رہے ہونگے کہ میں نوے کی دہائی میں ہی گھوم رہی ہوں تو عرض یہ ہے کہ پاکستان کا وقت اور سال بدلے ہیں مگرحالات نہیں بدلے ہیں دوسرے مسائل تو اپنی جگہ ہیں مگر ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق صوبائی دارلحکومت سمیت پورے پنجاب میں بچوں اور بچیوں کے اغوا میں خوفناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے اس رپورٹ کے مطابق6ماہ کے دوران تقریبا700بچے اغوا ہوچکے ہیں جو کہ مذکورہ عرصہ میں ماضی میں اغوا ہونے والے بچوں کی شرح سے تین گنا زیادہ ہے جو کہ نہ صرف پولیس کی ناقص کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں بلکہ پنجاب حکومت کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے جبکہ یہ اعدادو شمار اس صوبے کے ہیں جس کے خادم اعلیٰ کے بارے میں یہ اعلانیہ کہا جاتا ہے کہ وہ ایک انقلابی اور مثالی منتظم ہیںاور اگرچہ ملکی سطح پر مجموعی کار کردگی کا جائزہ لیا جائے تو پنجاب حکومت کی کارکردگی بعض شعبوں میں بلاشبہ دوسرے صوبوں کے مقابلے میںبہتر ہے چہ جائیکہ اب سنگین جرائم کی بازگشت یہاں بھی سنائی دینے لگی ہے جن کا تصورپہلے پہل دیہی علاقوں تک ہی محدود تھا جیسے غیرت کے نام پر قتل ،خواتین سے غیر انسانی سلوک ،سر عام قانون کی خلاف ورزیاں ،ڈکیتی ،چوری ،قتل وغارت گری اور بچوں سے زیادتی اور اغوا کے واقعات تشویش ناک ہیںاور ایسا نہیں ہے کہ یہ اعدادو شمار پہلی مرتبہ منظر عام پر آئے ہیں۔
kidnapping
بلکہ بچوں کے استحصال اوراغوا کے واقعات میں صرف پاکستان میں ہی نہیں اب توپوری دنیا میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور اس ضمن میں کوئی مضبوط لائحہ عمل یا ایسی حکمت عملی بھی تیار نہیں کی گئی جس سے ان جرائم کی روک تھام اور قلع قمع میں مدد مل سکے حتی کہ اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ اغوا کاروں کا سراغ بھی مل جاتا ہے مگر کوئی قابل قدر انتظام نہ ہونے کی وجہ سے عام آدمی کے بچے کی لاش ہی ملتی ہے ایسے میں بلاشبہ حالیہ رپورٹس کے مطابق پنجاب میں اغوا کاروں کاسر گم ہونا قابل فکر ہے جبکہ بچوں سے بد فعلی کے واقعات بھی مذکورہ تشویش رکھتے ہیں جیسے ماڈل ٹائون ،قصور اور کوٹ ادو میں جنسی زیادتی کے واقعات مایوس کن کار کردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ باقی مسائل حکومتوں کی نا اہلی کی وجہ سے اتنے بڑھ چکے ہیں کہ سلجھانے میںکافی وقت درکار ہے تو بھی بچوں کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیئے تھی مگر گذشتہ کئی برس سے یہ صورتحال ابتر رہی اور اب اس میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے
اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد جہاں ادبی،صحافتی،سماجی اور سیاسی حلقوں میں بحث چھڑنے کے بعدا ب تحریری طور پر اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے اس پر نوٹس بھی جمع کروا دئیے گئے ہیں مسئلہ یہ ہے کہ اس رپورٹ پر اعلیٰ حکام کی تشویش اہم نہیں ہے بلکہ اس پر ترجیحی بنیادوں پر قانون سازی اور ایکشن لینے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ جرائم جن کا تذکرہ افراد معاشرہ کی کم علمی ، جہالت اور دیہی رسم و رواج کو بنیاد بنا کر کیا جاتا تھا وہ اب شہروں کا رخ کر رہے ہیںخاص طور پر لاہور ان کی زد میں آرہا ہے یعنی کہ رواں سال میں قریباً700 بچوں کا اغوا کیا گیا جن میں سے اغوا ہونے والے 312 بچے لاہور سے اغوا ہوئے ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آج صوبائی دارلحکومت میں بچوں کا اغوا سنگین معاملہ بن چکا ہے مگر افسوسناک پہلو تو یہ ہے کہ اس بارے انتظامیہ مسلسل خاموش ہے یہ اسی خاموشی کا نتیجہ ہے کہ حالات اس نہج پر آگئے ہیں کہ پورے پاکستان میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے ان حقائق کے منظر عام پر آنے کے بعد پولیس کی طرف سے عدالت عالیہ میں جمع کروائی گئی رپورٹ کے مطابق 2015 سے جولائی 2016 تک 1808بچے پنجاب سے اغوا ہوئے جن میں 1093بازیاب کروا لئے گئے اور بقیہ بچوں کی بازیابی کے لیے تفتیشی عمل جاری ہے جبکہ حقائق تلخ ہیں کیونکہ بچوں کے ورثا سراپا احتجاج ہیں اور ان کے مطابق پولیس FIRدرج نہیں کرتی ہے اور اس پر سپریم کورٹ نے بھی اظہار برہمی کیا ہے کہ بچے مسلسل اغوا ہو رہے ہیں اور پولیس مقدمات درج نہیں کرتی اگر ہم گذشتہ سالوں کے اعدادو شمار پر نگاہ دوڑائیں تو 2013میں یہ تعداد سترہ سو چھ تھی 2014 میں یہ بڑھ کر اٹھارہ سو اکتیس ہوگئی اور 2015میں تیرہ سو چھیاسی واقعات رپورٹ ہوئے لیکن اغوا کے واقعات میں جہاں کمی واقع ہوئی وہاں تشدداور جنسی زیادتی کے واقعات میں سات فیصد اضافہ دیکھا گیاجو کہ رواں سال میں اسی تناسب سے بڑھ رہا ہے۔
Violence
واضح رہے یہ تمام اعدادو شمار صرف ان کیسسز کے ہیں جو رپورٹ کئے گئے ہیں اور اس پربھی پولیس ان بچوں کو تلاش کرنے یا بازیاب کروانے میں ناکام رہی ہے بس چند لاشیں ملی ہیں بلاشبہ بعد از اغوا بچوں پر ہونیوالا وحشیانہ تشدد بھی ایک الگ بحث رکھتا ہے آ ج جبکہ اتنے انتظامات ہیں اور حالات بدل چکے ہیں پھر بھی ہم مجبور ہیں ؟ ہمارے ہاتھ کیوں بندھے ہوئے ہیں ؟ والدین کے جگر گوشے غائب ہو رہے ہیںمائوں کی سینہ کوبی کسی کو نظر کیوں نہیں آتی؟پولیس بے بس کیوں ہے ؟ ایسی کیا قیامت ہے یا ایسا کونسا بھوت یا جاوید اقبال پھر پیدا ہو گیا ہے جو گلشن کو مسلنے اور اجاڑنے کی نیت کر بیٹھا ہے مگر ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے ان کشیدہ اور سنگین حالات میں با آواز بلند یہ دعوی سننے کو مل رہا ہے کہ عوام ہم پر مسلسل اعتماد کر رہے ہیں جو کہ بہترین کار کردگی کا مظہر ہے اس سلسلہ میں کشمیر کی جیت نے حکومت کے عزائم اور پوزیشن کو اور زیادہ مستحکم کر دیاہے مگر مجھے کہنے دیجئے کہ بچے والدین کی ہی نہیں قوم کا بھی اصل سرمایہ ہوتے ہیں اورآج غریب کا سرمایہ لٹ رہا ہے قوم کا مستقبل دائو پر لگا ہے اور یہ طے ہے کہ جس عہد میں لٹ جائے غریبوں کی کمائی ۔۔اس عہد کے سلطان سے کوئی بھول ہوئی ہے!۔
ایسے میں جوشیلے نعروں اور بیانات کی نہیں دوراندیشی کی ضرورت ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ کشمیری ہمیشہ سے اسے ووٹ دیتے ہیں جس کی وفاق میں حکومت ہو تاکہ فنڈز کی فراہمی یقینی رہے اور کچھ عوام اس قدر مدہوش ہو چکے ہیں کہ وہ ووٹ سوچ کر نہیں ماحول دیکھ کر دیتے ہیں ایسے میں ”جیت کا جشن ” منانے سے زیادہ بہتر ہے کہ عوم کے اعتماد کو برقرار رکھنے کے لیے ان کے مسائل کو ترجیحی بنیاوں پر حل کرنے کا سوچا جائے اور حکام بالا سے استدعا ہے کہ ایسے سفاک مجرموں کوفالفورگرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچائیں کیونکہ چادر اور چار دیواری کا تحفظ توپہلے ہی پامال ہو چکا ہے اور اب بچوں کا تحفظ بھی دائو پر لگ چکا ہے بے شک پنجاب کے حالیہ مجموعی حالات ایک لمحہ فکریہ ہیں !۔