برطانوی نشریاتی ادارے میں چھپنے والی رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں نے اس بات پر تحقیق کی ہے کہ انسانوں کو پیاس کیوں لگتی ہے، ٹھنڈا پانی پیاس کیوں بھجاتا ہے؟ اور دماغ کے اندر پانی کی کمی کی پیشن گوئی کی صلاحیت کیسے کام کرتی ہے۔ اس تحقیق کیلئے سائنسدانوں نے چوہوں کے دماغ کی سٹڈی کی۔
چوہوں کے دماغوں کے اندر کی سرگرمی آپٹک فائبر کی مدد سے ریکارڈ کی گئی۔ سائنسدانوں کو پتہ چلا کہ جب چوہے پیاسے ہوں تو ان کے دماغ کا ایک مخصوص حصہ بہت زیادہ فعال ہو جاتا ہے۔ تاہم جونہی وہ پانی پی لیتے ہیں تو اس حصے کی سرگرمی ماند پڑ جاتی ہے۔ اسی طرح جب چوہے کھاتے ہیں تو پیاس کا سرکٹ روشن ہو جاتا ہے، حالانکہ اس وقت تک ان کے خون کے اندر کسی قسم کی تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے سائنسدان زیکری نائٹ کا اس تحقیق پر بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انسانی دماغ کے اندر ایسے خلیے موجود ہیں جو خون کے زیادہ نمکین ہو جانے کی صورت میں پیاس کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم جونہی پانی پیتے ہیں، پیاس فوراً بجھ جاتی ہے۔
ڈاکٹر نائٹ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیاس جسم میں پانی کے توازن کے ردِعمل کے طور پر نہیں پیدا ہوتی بلکہ وہ خود پانی کی مقدار کنٹرول کرتی ہے۔ انھوں نے دریافت کیا ہے کہ غذا سے ایک مخصوص پیاس کا سرکٹ حرکت میں آ جاتا ہے اور منھ کے اندر کم درجہ حرارت سے بند ہو جاتا ہے۔ دماغ کے یہی خلیے پانی کی کمی کے باعث خون کے گاڑھا ہونے کی صورت میں بھی فعال ہو جاتے ہیں۔ ٹھنڈا پانی خلیوں کو زیادہ تیزی سے بند کر دیتا ہے۔ پانی پلائے بغیر بھی چوہوں کا منھ ٹھنڈا کرتے ہی سے پیاس کے خلیوں کی فعالیت کم ہو جاتی ہے۔
اس سے قبل سائنس دانوں کو حیرت تھی کہ انسانوں اور جانوروں میں پیاس کی کیفیت اتنی تیزی سے کیسے فعال ہو جاتی ہے۔ تاہم اس نئی دریافت سے مستقبل میں جسم کی پانی کی ضروریات کی پیشن گوئی کر سکتا ہے۔