جاپان (جیوڈیسک) جاپان نے چین کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اس نے چینی کوسٹ گارڈ کی چھ کشتیوں اور دو سو سے زائد ماہی گیری کے کشتیوں کو جاپان کے زیر کنٹرول سینکاکو کے جزیروں کے قریب دیکھا ہے۔
چین کے ساحلوں سے بہت دور واقع دو متنازع سمندری جزیروں کے قریب چینی کوسٹ گارڈ کشتیوں اور ماہی گیری کے ٹرالوں کی آمد پر جاپان نے احتجاج کیا ہے۔
یہ چینی اقدام گزشتہ ماہ ثالثی کی بین الاقوامی عدالت کے فیصلے کے باوجود دیکھنے میں آیا۔ عدالت نے بحیرہ جنوبی چین میں چینی ملکیت کے دعوؤں کو مسترد کر دیا گیا تھا۔
جاپان نے چین کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اس نے چینی کوسٹ گارڈ کی چھ کشتیوں اور دو سو سے زائد ماہی گیری کے کشتیوں کو جاپان کے زیر کنٹرول سینکاکو کے جزیروں کے قریب دیکھا ہے۔ چین بھی ان جزیروں پر ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے اور وہ انہیں دیویو کے نام سے پکارتا ہے۔
چینی کشیتوں کو یہاں آنے کی اجازت ہے تاہم ہفتے کو ایک بڑی تعداد میں ان کشتیوں کی یہاں موجودگی تشویش کا باعث بنی۔
جاپان کی وزارت خارجہ نے ان کشتیوں کے یہاں سے جانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ (چینی) کوسٹ گارڈ کی تین کشتیاں اسلحہ سے لیس تھیں اور بظاہر ان پر توپیں نصب تھیں۔
چین نے اس پر اپنے ردعمل میں اپنے موقف کو دہرایا کہ یہ “شروع ہی سے چین کا ہی علاقہ ہے”۔
چین نے اس بات کا بھی اعلان کیا کہ اس نے بحیرہ جنوبی چین کے متنازع علاقے میں اپنی حربی صلاحیت کو بہتر کرنے کے لیے فضائی مشقیں کی ہیں۔
چینی فضائیہ کی طرف سے یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ مشقیں کب ہوئی تھیں تاہم سرکاری خبررساں ایجنسی شینخوا کی رپورٹ کے مطابق ان (مشقوں) میں کئی قسم کے لڑاکا طیاروں نے حصہ لیا اور ان طیاروں نے مختلف ہوائی اڈوں سے اڑان بھری۔
گزشتہ ماہ ہیگ میں قائم ثالثی کی مستقل عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ بحیرہ جنوبی چین کے متنازع علاقے میں چین کے ملکیت کے دعوؤں کا “کوئی قانونی جواز نہیں ہے” ۔
تاہم چین نے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اس مسترد کر دیا تھا۔
چین بحیرہ جنوبی چین کے ایک بڑے حصے پر ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے جہاں حالیہ سالوں میں اس نے کئی سمندری چٹانوں کو مصنوعی جزیروں میں تبدیل کر نے کے بعد وہاں فضائی پٹیاں بنا لی ہیں جن پر مبینہ طور پر فوجی آلات نصب کیے جا سکتے ہیں۔
اس متنازع خطے پر برونائی، ملائیشیا، ویت نام، تائیوان اور فلپائن بھی ملکیت کا دعویٰ رکھتے ہیں۔
بحیرہ جنوبی چین قدرتی وسائل سے مالا مال سمندری خطہ ہے اور یہاں سے ہر سال پانچ کھرب ڈالر کے تجارتی سامان کی نقل و حمل ہوتی ہے۔