واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکہ میں متعلقہ اداروں کی طرف سے ان ممکنہ دہشت گردوں پر سے پردہ اٹھایا جارہا ہے جو بظاہر غیر منظم ہیں لیکن شاید ان کی جڑیں نہایت گہری ہیں۔ ان میں سے کئی ایک، ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں لیکن کئی ایک ایسے بھی ہیں جو اکیلے ہی کارروائی کرنے پر تیار رہتے ہیں۔
ایسے شدت پسند گروپوں سے متعلق تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے جن کے آپس میں نہایت پیچیدہ روابط اور ( ان کی ایک دوسری کے لیے ) حمایت کئی سالوں پر محیط ہے۔ قانون ںافذ کرنے والے ایک عہدیدار جو حال ہی میں سامنے آنے والے معاملات میں سے ایک کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں، کا کہنا ہے کہ “ایف بی آئی کئی ایسے (گروپوں) پر نظر رکھے ہوئے ہے، میرے خیال میں ملگ گیر سطح پر ایسا کیا جارہا ہے”۔
اس عہدیدار نے نے وائس آف امریکہ سے نام ظاہر نا کرنے کے شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ واضح ہے کہ “ان میں سے بہت سارے داعش کے (منظر عام پر) آنے سے پہلے سے یہاں (موجود) تھے۔”
اس معاملے کے بارے میں وائٹ ہاؤس کو بھی تشویش ہے۔ جمعرات دیر گئے پینٹاگان میں قومی سلامتی کے عہدیداروں کے ایک اجلاس کے بعد صدر براک اوباما نے کہا کہ “یہ عین ممکن ہے کہ یہاں (امریکہ میں) ایسے نیٹ ورک موجود ہیں جو سرگرم ہو سکتے ہیں”۔
” ہمیں ان نیٹ ورکس کو ختم کرنے کے لیے بہتر انداز میں کام کرنا ہو گا”۔
تاہم انسداد دہشت گردی سے متعلق ایک سابق عہدیدار نے متنبہ کیا کہ ایسا کرنا ایک مشکل کام ہوگا کیونکہ ان گروپوں کو جو چیز (نظریہ) جوڑ کر رکھتی ہے صرف ایک گروپ کو ختم کرنے سے اس کا تدارک نہیں ہو سکتا ہے۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے انتہا پسندی سے متعلق ایک پروگرام کے نائب ڈائریکٹر سیمس ہیوز کا کہنا ہے “عام لوگوں کے لیے النصرہ، آئی ایس آئی ایس ( داعش) اور القاعدہ اور الشباب کے درمیان فرق کرنا (ممکن نہیں کیونکہ) ان کے اختلافات بغیر کسی امیتاز کے ہیں”۔
” ایک چیز جو ان میں مشترک ہے وہ ایک نظریاتی اساس ہے جو ان گروپوں کو متحرک رکھتی ہے”۔
کئی ایک واقعات میں تحقیق کاروں کا ماننا ہے کہ ان گروپوں کے کارکنوں میں ایک بات مشترک ہے کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے تشدد کرنے پر بھی تیار رہتے ہیں۔
ہیوز جو قبل ازیں انسداد دہشت گردی کے قومی مرکز میں کام کرچکے ہیں، کا کہنا ہے کہ “اگر داعش کو مستقبل میں ختم بھی کر دیا جاتا ہے پھر بھی ایسے گروہ ہیں جو منظر عام پر آ سکتے ہیں اور ایسے افراد پہلے ہی سے تیار ہیں”۔
ان خطرات کو شاید واشنگٹن ڈی سی ٹرانزٹ پولیس کے 36 سالہ اہلکار نکولس ینگ کے معاملے سے زیادہ کوئی اور معاملہ زیادہ واضح نہیں کر سکتا جسے رواں ہفتے شدت پسند گروپ داعش کے لیے ’موبائل مسیجنگ اکاؤنٹ‘ حاصل کرنے کی معاونت کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس اکاونٹ کا مقصد داعش کے لیے لوگوں کو بھرتی کرنا تھا۔
ان کی گرفتاری کئی سالوں سے جاری ایک خفیہ کارروائی کے نتیجے میں عمل میں آئی ہے جو ممکنہ طور پر ایف بی آئی نے 2010 میں اس وقت شروع کی جب ایف بی آئی نے ینگ سے ان کے ایک واقف کار کی بابت بات کی تھی۔
ہیوز نے کہا کہ “ایف بی آئی کی کسی انکوائری کے لیے چھ سال ایک طویل عرصہ ہے۔۔۔انہیں (اس بارے) واضح طور پر تشویش تھی”۔
قانون نافذ کرنے والے عہدیدار نے یہ بتانے سے انکار کیا کہ آیا میٹرو ٹرانزٹ پولیس کے چھ سال سے جاری تحقیق کے مزید نتائج سامنے آئیں گے یا نہیں تاہم وفاقی تحقیقاتی ادارے کے واشنگٹن فیلڈ دفتر کی ایک ترجمان نے کہا کہ یہ عین ممکن ہے کہ (ایسے) مزید کیس سامنے آئیں۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے منسلک ہیوز کا کہنا ہے کہ مارچ 2014 سے ورجینیا سے دہشت گردی کے الزامات کے تحت دس افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ اس کے مقابلے میں نیویارک میں 18 جبکہ مینوسوٹا سے 13 افراد کو دہشت گردی سے متعلق الزامات کے تحت گرفتار کیا جا چکا ہے۔
“ان تمام کیسوں کا تعلق ان لوگوں کے ساتھ ہے ۔۔جو بھرتی کرنے یا بنیاد پرستی (کی ترویج) سے ہے جب وہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں”۔
کئی مبصرین نے اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ دہشت گردی کی ممکنہ کارروائیوں کو روکنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات اور ان کی طرف سے مسلسل مشتبہ گروپوں پر نظر رکھنے کے باوجود یہ نیٹ ورک اپنا وجود قائم رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔