کیلیفورنیا: دنیا کے وہ قدرتی وسائل جو حضرتِ انسان کو اس سال 31 دسمبر تک استعمال کرنے چاہیے تھے وہ اس نے 8 اگست تک ہی پھونک ڈالے ہیں۔ جبکہ پچھلے سال ہم نے سال بھر جتنے زمینی وسائل 13 اگست تک استعمال کرلیے تھے یعنی پچھلے سال کے مقابلے میں اس برس ہم نے پورے سال کا کوٹہ مزید 5 دن کم میں استعمال کر لیا ہے۔
اگر زمینی وسائل کے بے دریغ استعمال میں اضافے کا رجحان یونہی جاری رہا تو زیادہ سے زیادہ 2060 تک ہم صرف ایک دن کے دوران پورے سال جتنے زمینی وسائل پھونک رہے ہوں گے۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ ہم انسان خود اپنی ہی بقاء کو داؤ پر لگائے بیٹھے ہیں۔ تقریباً یہی بات چند روز پہلے مشہور سائنسداں اسٹیفن ہاکنگ نے بھی کہی تھی کہ انسان کا بڑھتا ہوا لالچ اس کی اپنی تباہی کی وجہ بن سکتا ہے۔ یہ خبر بھی اسی تشویش کا اعادہ کرتی نظر آتی ہے۔
مذکورہ سالانہ رپورٹ بین الاقوامی تنظیم ’’گلوبل فُٹ پرنٹ نیٹ ورک‘‘ نے اقوامِ متحدہ کے فراہم کردہ اعداد و شمار استعمال کرتے ہوئے جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت قدرتی وسائل کی سالانہ مانگ اتنی بڑھ چکی ہے کہ اسے پورا کرنے کے لیے زمین جیسے 1.6 سیاروں کی ضرورت پڑے گی اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ ضرورت بھی بڑھتی ہی جائے گی۔ البتہ مختلف ملکوں میں قدرتی وسائل کی مانگ بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ رپورٹ مرتب کرنے کے لیے زراعت، ماہی گیری اور معدنیات سمیت ہزاروں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے اعداد و شمار شامل کیے گئے ہیں۔
زمینی وسائل کے بے رحمانہ استعمال میں سنگاپور سرفہرست ہے جو اپنی گنجائش کے مقابلے میں 159.5 گنا زیادہ قدرتی وسائل استعمال کررہا ہے۔ یعنی اگر اس زمین پر بسنے والے تمام لوگ سنگاپور والوں کی طرح رہنا شروع کردیں تو ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے زمین جیسے 159.5 سیارے درکار ہوں گے۔
دیگر اہم ممالک میں جنوبی کوریا اپنی گنجائش سے 8.4 گنا زیادہ وسائل استعمال کررہا ہے، جاپان 7 گنا زیادہ، سوئٹزرلینڈ 4.4 گنا، اٹلی 4.3 گنا، برطانیہ 3.8 گنا، چین 3.6 گنا، اسپین 2.9 گنا، بھارت 2.6 گنا، جرمنی 2.3 گنا، امریکا 2.2 گنا جب کہ فرانس اپنی گنجائش سے 1.7 گنا زیادہ قدرتی وسائل استعمال کر رہا ہے۔
پاکستان اپنی گنجائش سے 2.3 گنا زیادہ قدرتی وسائل استعمال کررہا ہے اور یہ شرح اگرچہ دوسرے ممالک کے مقابلے میں خاصی کم ہے لیکن اسے اطمینان بخش قرار نہیں دیا جاسکتا۔ رپورٹ دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے فرنچ گیانا اپنی گنجائش کے اعتبار سے قدرتی وسائل کا بالکل بھی استعمال نہیں کرتا کیونکہ اس کی ریٹنگ 0.0 لکھی ہوئی ہے لیکن باریک بینی سے جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ فرنچ گیانا سے حاصل شدہ اعداد و شمار بھی بڑی حد تک ناقابلِ بھروسہ ہیں۔
گلوبل فٹ پرنٹ نیٹ ورک نے حساب لگایا ہے کہ 1960 سے لے کر 1970 تک انسان پورے سال کے دوران اتنے ہی قدرتی وسائل استعمال کررہا تھا جتنے سال بھر میں زمین سے حاصل کیے جاسکتے تھے بلکہ 1961 میں تو دستیاب سالانہ عالمی قدرتی وسائل کا 75 فیصد ہی استعمال کیا گیا تھا۔
البتہ 1970 سے اضافے کا رجحان شروع ہوا کیونکہ اس سال انسان نے پورے سال کے زمینی وسائل 23 دسمبر تک استعمال کرلیے تھے۔ تب سے لے کر آج تک سالانہ قدرتی وسائل پھونک ڈالنے کی تاریخ پیچھے ہوتی چلی جارہی ہے یعنی ہم ہر سال زیادہ سے زیادہ قدرتی وسائل استعمال کرتے چلے جارہے ہیں۔
ایسا نہیں کہ سب کچھ برا ہے بلکہ کچھ اچھی مثالیں بھی ہیں۔ مثلاً کوسٹا ریکا نے پچھلے سال مسلسل 75 دنوں تک قابلِ تجدید ذرائع(renewable resources) سے 100 توانائی حاصل کرکے ماحول دوستی میں ایک نیا ریکارڈ قائم کیا جب کہ جرمنی نے پچھلے سال اپنی بجلی کی 95 فیصد ضرورت ایسے ہی ذرائع سے پوری کی۔ چین جہاں توانائی کی طلب دنیا میں سب سے زیادہ ہے وہ بھی 2030 تک اپنی توانائی کی 50 فیصد سے زائد ضرورت متبادل ذرائع توانائی سے پوری کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔
گلوبل فٹ پرنٹ نیٹ ورک کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کا مقصد عوام اور پالیسی سازوں میں ماحولیاتی شعور پیدا کرنا ہے تاکہ زمین پر انسانی سرگرمیوں کا بوجھ کم سے کم کیا جاسکے اور آنے والی نسلوں کا مستقبل بھی محفوظ بنایا جا سکے۔