تحریر : اختر سردار چودھری۔ کسووال قومی دن منانے کی روایت زندہ قوموں کی نشانی ہوتی ہے۔ اور زندہ قومیں بے حس نہیں ہوتیں ۔قومی دن اتحاد کی علامت ہوتا ہے، اور ہمارے ملک میں یہ عنقا ہے، ہمارا بے اتفاقی پر اتفاق ہے، یہ شکر کا دن ہوتا ہے اللہ نے جو نعمتیں اس ملک کو عطا کیں ان کا استعمال قوم و ملک کے مفاد میں ہو۔ 14 اگست کو قوم 69 واں یوم آزادی منارہی ہے۔ یہ تجدید عہد کا دن ہوتا ہے، اپنے مقصد کی تجدید کا دن، اور جو قوم اپنا مقصد ہی بھول گئی ہو۔69 سال میں سمت ہی طے نہ ہو ئی ہو ۔ہر حکومت کی الگ سمت ہو دوسری آئے دوسری سمت میں کام کرنا شروع کر دے۔
پاکستان میں کمی ہے تو ایک مخلص رہنما کی ۔ایک حقیقی حکومت کی جو اصلاحی ،جمہوری اور اسلامی ہو۔سب سے بڑی وجہ ناقص حکمت عملی ہے جو حکومت کے ساتھ بدل جاتی ہے۔ایسا نہیں ہونا چاہیے ۔ترقی ایک مسلسل عمل ہوتا ہے۔ اسے رکنا نہیں چاہیے ۔حکومتیں آتی جاتی رہیں مگر ملکی ترقی کا سفر نہ رکے ،اس کے لیے ایک پالیسی ہونی چاہیے جو بھی حکومت میں آئے وہ اس پر عمل کی پابند ہو ۔ایسا کوئی قانون ہونا چاہیے اور اس پر سختی سے عمل ۔ بر صغیر کے مسلمانوں نے اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ ہم پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنائیں گے ۔اللہ سے یہ وعدہ ہمارے آبائو اجداد نے کیا تھا اس کو خواب کو پورا ہم نے کرنا تھا ۔اس وعدے کا احساس تک ہم کو نہیں ہے ہمارے قائد کو اس کا احساس تھا، انہوں نے فرمایا تھا ،ہم نے پاکستان کا مطالبہ محض زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔
اللہ تعالی نے پاکستان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا،یہاں ، وسیع میدان ،پہاڑ،سمندر،صحرا ،جنگل ہیں ۔چاروں موسم ہیں، پاکستان کی جغرافیائی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں یہ ایک ایٹمی ملک ہے ، اس میںنمک کی دوسری بڑی کان،دنیا کی پانچویں بڑی سونے کی کان ،تانبے کی ساتویں ، دنیا کا دوسرا بڑا ڈیم، اور پیداوار کے لحاظ سے کپاس ،چاول ،آم ،مٹر خوبانی گنا میں خود کفیل اور دنیا میں دوسرے ،تیسرے ،چوتھے نمبر پر ۔ پاکستان دنیا میں زرعی پیداوار کے لحاظ سے 25 ویں اور صنعتی لحاظ سے 55ویں نمبر پر ہے ۔پاکستان میںگیس کے وسیع ذخائر ہیں ۔ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے زرعی ،صنعتی ،معدنی اورافرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے ۔یہ ساری نعمتیں اللہ نے پاکستان کو دی ہیں ان سے خاطر خواہ فائدہ ہم نے نہیں اٹھایا۔
Pakistan
ملک مسائل کی آگ میں پھنسا ہوا ہے غیر ملکی قرض کے انبار ہیں۔کمر توڑ مہنگائی نے غریبوں سے جینے کا حق چھین لیا ہے ،ضروریات زندگی نصف آبادی کو میسر نہیں ہے آٹا ،چینی،گھی ،دال،سبزی کے ریٹ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ لاقانونیت سے ہمارے اخبار بھرے پڑے ہیں ملک میں انصاف نہیں بے انصافی بکتی ہے ، سودورشوت و سفارش عام ہے،یہاں چوری، ڈاکہ اور قتل و غارت کلچر بن چکا ہے ،بدمعاشوںکو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
معاشرے میں جو بگاڑ ہے؟معاشرے میں بگاڑ کیوں ہے؟ اس کے اسباب کیا ہیں ؟اور اس کا حل کیا ہے؟ انہیں حل کرنا کس کی ذمہ داری ہے ؟کوئی علم نہیں ہے سب ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال رہے ہیں ۔ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ افراد سے معاشرہ بنتا ہے اس لیے افراد کو پہلے سدھرنا ہو گا ،دوسرا نقطہ نظر ہے کہ اجتماعی نظام ہی بگڑ چکا ہے اسے ٹھیک ہونا چاہیے ۔اس کے لیے ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو صرف قوم و ملک کے لیے فیصلے کرے ۔ایک بات یہ بھی ہے کہ ان کے لیے جو کہ رہے ہیں کہ اصلاح کا عمل تدریجی ہونا چاہیے کہ ہم نے غیر مسلموںکی اصلاح نہیں کرنی بلکہ مسلمانوں کی کرنی ہے اسلامی قانون نہ ہونے کی وجہ سے مسلمان اسلام سے دور ہوئے ہیں۔
جو اسلام کے دائرے میں ہے یعنی مسلمان ہے وہ تب تک اسلامی قانون نہیں توڑے گا اگر اس کو سزا کا خوف ہو گا۔کیونکہ برائی میں کشش ہے اس لیے برائی کی طرف انسان کا متوجہ ہو جانا شائد فطری ہے اور اگر اس پر آزادی ہو تو یہی انجام ہونا تھا جو ہوا ہے ،اسے آزادی کا نام نہیں دینا چاہیے ،نہ ہی یہ روشن خیالی ہے بلکہ یہ بغاوت ہے اسلامی قانون و شریعت سے۔آپ کو اپنا بازو گمانے کی آزادی ہے صرف اتنی کہ دوسرے کے منہ پر نہ لگے۔
Quaid e Azam
پاکستان کی بنیاد اسلام پر رکھی گئی ہے اور اس کی بقا بھی اسلام ہے ، قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ۔ایک مملکت قائم کرنا ہمارا مقصود نہیں تھا بلکہ یہ حصول مقصد کا ایک ذریعہ تھا کہ ہم ایسی مملکت کے مالک ہوںجہاں ہم اپنی روایات اور تمدنی خصوصیات کے مطابق ترقی کر سکیں ،جہاں اسلام کے عدل و انصاف اور مساوات کے اصولوںکو آزادی سے بر سر عمل آنے کا موقع حاصل ہو ۔دین سے دوری نے نفسانفسی کا ماحول پیدا کر دیا ہے ملکی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دی جانے لگی ہے۔
چین پاکستان سے ایک سال بعد آزاد ہوا، اسے مخلص لیڈر مل گئے پاکستان کی بد قسمتی کہ اسے نہ ملے ۔اسلامی فلاحی ریاست کا خواب پورا نہ ہوسکا۔ساری نعمتیں اللہ نے پاکستان کو دیں مگر ہم عوام ایک مخلص لیڈر کی تلاش نہ کر سکے ۔جو وطن کے لیے ،قوم کے لیے کام کرے ۔بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ہمارے اکثر لیڈروں کی دولت و جائیداد بیرون ملک ہے ۔ہمارے ملک کے یہ حالات کب تک ہم پر سایہ فگن رہیں گے اس بارے کچھ کہنا مشکل ہے بس دعا ہے ،امید ہے ،او ر امید پر دنیا قائم ہے۔