اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان میں قائم پاک ترک اسکولوں کے 28 پرنسپلز کو اُن کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے اور اسکول انتظامیہ کے مطابق ان میں 23 ترک شہری بھی شامل ہیں۔ اسکول انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے نام نا ظاہر کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان میں اس تعلیمی ادارے کی مجموعی طور پر 28 شاخیں ہیں اور اُن تمام کے پرنسپلوں کو ہٹا دیا گیا ہے۔
انتظامیہ کی طرف سے کہا گیا کہ ان تعلیمی اداروں کو بند کرنے کے حوالے سے حکومت کی طرف سے تاحال اُنھیں کچھ نہیں کہا گیا اور انتظامیہ نے یہ فیصلہ از خود کیا۔ لیکن اس فیصلے کی وضاحت نہیں کی گئی۔ واضح رہے کہ ترکی میں گزشتہ ماہ صدر رجب طیب اردوان کی حکومت کے خلاف بغاوت کی ایک کوشش کو ناکام بنا دیا گیا۔
ترک حکومت اس کا الزام امریکہ میں مقیم ترک مبلغ فتح اللہ گولن پر عائد کرتی ہے، تاہم فتح اللہ گولن اس کی سختی سے تردید کر چکے ہیں۔ فتح اللہ گولن کی تنظیم کے زیر اثر دنیا بھر میں تعلیمی ادارے قائم ہیں اور ترکی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قائم پاک ترک اسکول بھی اُسی کا حصہ ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ان تعلیمی اداروں کا کسی سیاسی یا مذہبی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ترکی چاہتا ہے کہ پاکستان ان تعلیمی اداروں کے خلاف کارروائی کرے اور رواں ماہ کے اوائل میں ترکی کے وزیر خارجہ میولوت چاؤش اوغلو نے بھی پاکستان کا دورہ کیا تھا اور اسی مطالبے کو دہرایا تھا۔
پاکستان کی طرف سے ترکی کو یہ یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ فتح اللہ گولن کے پاکستان میں قائم تعلیمی اداروں کی مبینہ غیر قانونی سرگرمیوں کی تحقیقات کی جائیں گی۔ پاک ترک نامی اسکولوں اور کالجوں میں لگ بھگ 11 ہزار پاکستانی طالب علم زیر تعلیم ہیں اور اس تعلیمی ادارے کے کم و بیش 1500 اساتذہ میں سے 150 کا تعلق ترکی سے ہے۔
پاکستانی عہدیدار یہ کہتے رہے ہیں کہ تعلیمی اداروں کو چلانے کے متبادل انتظامات پر غور کیا جا رہا ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی جائے گی کہ پاک ترک اسکول و کالجوں میں زیر تعلیم طالب علموں کا تحفظ کیا جائے۔ پاکستانی حکام کے مطابق ان تعلیمی اداروں کو چلانے کا ایک ممکنہ طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ ترکی ایسا کوئی ادارہ تجویز کر دے جو ترک اسکولوں کے منتظم کے طور پر کام کرے۔