تحریر : محمد شرف عالم قاسمی خدا رسیدہ وکعبہ ددیدہ، پاکیزہ وبرگزیدہ، انگریز ظلم وستم سے لبریز کی طرف سے دی جانے والی شدید ترین تکلیف وضرب ِشدید سہ سہ کر خمیددہ وحالات چسیدہ، متین وسنجیدہ، برطانیہ حکومت وقیادت کے مسلم ممالک خصوصاً ہندستان جنت نشان پر ظالمانہ، جابرانہ اور غاصبانہ ناجائز قبضہ سے حد درجہ غمزدہ ورنجیدہ، اور تمام مسلم دنیا خصوصاً ہندستان ذی شان کی آزادی وبامرادی کے لئے کڑاکے کی ٹھنڈی اور سخت ترین سرد رات میں اپنے معبود ومسجود اور مطلوب ومقصود کے حضور گھنٹوں سجدہ ریز ونم دیدہ، خدائی قانون ومحمدی اصول کے علمبردار ودلدادہ اور پوری دنیا میں آزادی کے تعلق سے چلائی جانے والی تحریکوں وتنظیموں میں سب سے زیادہ منظم، منصوبہ بند اور طاقتور تحریک ریشمی رومال کے بانی ونمائندہ حضرت شیخ الہند محمود حسن دیوبندی تحریک آزادی کے عظیم قائد اور جلیل القدر، عظیم المرتبت واولو العزم رہنما تھے۔
ہندستان عالی شان کی خوشحالی وآزادی کے لئے حضرت والا نے اپنا سب کچھ جھونک دیا، اپنا سب کچھ پھونک دیا، تب جا کر ہم ہندستانیوں اور بھارت باسیوں نے آزاد ہندستان لیا، اور حضرت شیخ الہند کو اس پرمغز ومعنی خیز شعر کا مصداق قرار دیا:
پھونک کر اپنے آشیانے کو روشنی بخش دی زمانے کو حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی تحریک قیام مدارس ومکاتب ومؤسس اسلامی، مثالی والہامی ادارہ دار العلوم دیوبند کے شاگرد رشید وفیض یافتہ حضرت شیخ الہند ہندستان کی آزادی کے پرجوش مگر باہوش داعی، مخلص شیدائی اور جانباز سپاہی تھے۔
پوری دنیا میں مذہب اسلام ودین ِ خیر الانام صلی اللہ علیہ وسلم کے ترجمان وپاسبان اور ازہر ہند وام المدارس دار العلوم دیوبند کے ساری دنیا میں وکیل اور اس کی زبان حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی مد ظلہ العالی جن پر اللہ تعالی کی زبردست اور عظیم ہے مہربانی، ان کے سدا بہار ومشکبار قلم کی زبانی، پیش ہے حضرت شیخ الہند کی تحریک آزادی میں مجاہدانہ وقائدانہ رول کی قابل صد رشک اور لائق صد شکر کہانی(مضمون میں ہلکی سی تبدیلی کی گئی ہے):
Darulollom
”حضرت مولانا محمود الحسن دار العلوم دیوبند کے سب سے پہلے طالب علم تھے، پھر مدرس، صدر مدرس شیخ الحدیث سبھی کچھ رہے، اور دارالعلوم کی چٹائیوں پر بیٹھ کر ہی انہوں نے آزادیٔ ہند کی وہ بین الاقوامی تحریک چلائی جو ریشمی رومال کی تحریک کے نام سے معروف ہے، دیکھنے میں بالکل ہی کمزور وناتواں، مگر باطل کے لئے ایک ناقابل تسخیر چٹان:
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفاں ساری عمر جہاد اور اس کی تیاری میں گذری، جب وفات کا وقت آیا تو طبیعت پر آزردگی دیکھ کر بعض لوگ یہ سمجھے کہ شاید موت کی فکر ہے، لیکن پوچھا گیا تو یہ جواب دیا کہ: ” آرزو یہ تھی کہ کسی میدان کارزار میں موت آتی،سر کہیں ہوتا، دھڑ کہیں، غم اس کا ہے کہ آج بستر پر مر رہا ہوں”، علم وفضل، تقوی وطہارت، جہد وعمل، تواضع وللہیت اور ایثار وقربانی کا یہ پیکر جمیل دار العلوم کی فصل کا پہلا پھل تھا”۔ (جہانِ دیدہ، ص: ٥٠٢)
جنگ آزادی کے عظیم ہیرو حضرت ٹیپو سلطان شہید جن کی دردناک وکربناک وافسوسناک شہادت نے جنگ آزادی کے مسئلہ کو بنادیا زیرو، کے ساتھ ساتھ حضرت شیخ الہند اپنے جوشِ عمل، اپنے سرفروشانہ ومجاہدانہ رول اور تحریک آزادی میں اپنے قائدانہ کردار کی وجہ سے یقیناً اور بجا طور پر ان اشعار آزادی شعار کے مصداق تھے: عشق وآزادی بہار زیست کا سامان ہے عشق مری زندگی، آزادی میرا ایمان ہے عشق پر کردوں فدا میں اپنی ساری زندگی مگر آزادی پر میرا عشق بھی قربان ہے بقیہ ان شاء اللہ آئندہ، اللہ رکھے تادیر زندہ وتابندہ۔
شاملی کے میدان کارزار میں انگریز سپاہیوں کو للکارنے اور پکارنے والے، امام ِربانی وعالم ِحقانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کے دست گرفتہ وتربیت یافتہ اور عالم اسلام کی موقر وعظیم دانش گاہ دار العلوم دیوبند کے سند یافتہ وفیض یافتہ حضرت شیخ الہند انگریزوں کی تمام ہندستانیوں خاص کر مسلمانوں کے ساتھ وحشیانہ وسفاکانہ حرکت قابل صد نفرت ولائق صد مذمت سے بے حد دل آزار وبیزار تھے، اور انگریز دشمنی اور ان کی آخری حد تک مخالفت میں ٹیپو سلطان شہید کے ساتھ ساتھ یا ان کے معاً بعد حضرت والا کا کوئی ثانی نہیں تھا،چنانچہ مفکر اسلام جن پر حق تعالی کا خاص تھا انعام، اور پوری دنیا میں تھا جن کا غیر معمولی اکرام، جو اپنے وقت کے تھے سارے علماء کے امام، اور جن کو اللہ تعالی نے بخشا تھا بہت ہی اونچا مقام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی حضرت شیخ الہند کی مذکورہ خاص بات وقابل صد ستائش بلند صفات کے بارے میں اپنے گہر بار وضو بار محققانہ ومورخانہ قلم اعجاز رقم سے تحریر فرماتے ہیں:
Ottoman Empire
”دار العلوم دیوبندکے صدر مدرس مولانا محمود حسن دیوبندی (جو بعد میں شیخ الہند کے نام سے مشہور ہوئے) انگریزی حکومت اور اقتدار کے سخت ترین مخالف تھے، سلطان ٹیپو کے بعد انگریزوں کا ایسا دشمن اور مخالف دیکھنے میں نہیں آیا، وہ سلطنت عثمانیہ کے (جو اس وقت عالم اسلام کی رہنما، قائد اور خلافت کی علمبردار تھی) بہت پرجوش حامی تھے، اور ہندستان کی آزادی اور آزاد قومی حکومت کے قیام کے بہت بڑے داعی، وہ ان لوگوں میں تھے جن کی پوری زندگی اس مسئلہ کے لئے وقف تھی، ان کی ساری دلچسپیاں اور ساری جد وجہد اس پر مرکوز تھیں، انہوں نے اس سلسلہ میں حکومت افغانستان اور سلطنت عثمانیہ کے بعض سربراہوں مثلاً انور پاشا وغیرہ سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی، ١٩١٦ء میں شریف حسین کی حکومت نے ان کو مدینہ منورہ میں گرفتار کرکے انگریزی حکومت کے حوالہ کردیا، جس نے ان کو اور ان کے چند ساتھیوں اور شاگردوں (مولانا حسین احمد مدنی، مولانا عزیز گل، مولانا حکیم نصرت حسین، مولوی وحید احمد) کو ١٣٣٥ھ مطابق ١٩١٧ء میں مالٹا میں جلاوطن کردیا گیا، یہ جماعت ١٣٣٨ھ مطابق ١٩٢٠ء تک وہیں رہی”۔ (ہندستانی مسلمان، ایک تاریخی جائزہ، ص: ١٣٦)
حضرت شیخ الہند اسیر مالٹا، بر صغیر ہند وپاک کی آزادی وخوشحالی، ترقی وبلندی کے لئے جنہوںنے اپنا سب کچھ دیا لٹا، اور مٹا، اور جن کی آخری خواہش اور سب سے بڑی تمنا تھی کہ اپنے رب کی خوشی وخوشنودی اور وطن عزیز دل وجان سے لذیذ کے لئے اپنا سر بھی دوں گا کٹا، کے مادر علمی دار العلوم دیوبند کے قیام کا اصل مقصد اور بنیادی وکلیدی وجہ ١٨٥٧ء کی ناکامی ونامرادی کی تلافی، شہنشاہِ اعظم، خالق دو عالم اور مالک لوح وقلم کے پسندیدہ وچنیدہ دین ِ اسلام کی سربلندی وسرفرازی اور اسلام دشمن طاقت وباطل قوت سے جہاد کرنا اور ان کو صفحۂ ہستی سے مٹانا ہے، خاص طور پر انگریزوں کی اسلام ومسلمانوں کے خلاف رچی جانے والی ناپاک سازش ونامراد کوشش کو ناکام بنانا ہے، انہیں عظیم ، مبارک، قابل شکر وشرف اور لائق صد رشک ومجد مقاصد کے حصول اور اس میں بھرپور کامیابی کے لئے آپ نے جنگ آزادی کی سب سے زیادہ موثر، مفید، طاقتور اور مستحکم تحریک ریشمی رومال کی داغ بیل ڈالی، اور اس شعر
میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی میں اسی لئے مسلماں، میں اسی لئے نمازی کے مصداق بن کر دار العلوم کے شاندار وسدابہار علمی ودینی ماحول کو چھوڑ کر میدان جہاد میں کود پڑے، کس دار العلوم کو چھوڑ دیا؟ اس دار العلوم کو جس کے بارے میں عالم اسلام کی متاع عزیز، علمی دنیا کی ہر دلعزیز ، مثالی شخصیت شیخ الاسلام حضرت مولانا تقی عثمانی دامت برکاتہم اپنے فکر انگیز، دل آویز وعطر بیز قلم اعجاز رقم سے تحریر فرماتے ہیں:
Darululoom
”دار العلوم دیوبند رشد وہدایت کا وہ عظیم سرچشمہ ہے، جس کے فیض نے ہزاروں میل دور رہنے کے باوجود مجھ جیسے نہ جانے کتنے پیاسوں کو سیراب کیاہے، یہ ان علماء محققین کا مرکز ہے جن کی خوشہ چینی کرکے مجھ جیسے طالب علم جی رہے ہیں، یہ ان اولیاء اللہ کی سرزمین ہے جنہوں نے اپنی پاکیزہ سیرتوں سے قرون اولی کی یاد تازہ کی اور دین ودنیا کی جو کوئی نعمت مجھ جیسے طالب علموں کے پاس ہے وہ انہیں کی جوتیوں کا صدقہ ہے، یہ ان خدا مست مجاہدین کی چھاؤنی ہے جنہوں نے پیٹ پر پتھر باندھ کر طاغوت کی ہر شکل اور باطل کے ہر روپ کے خلاف جہاد کیا، اور اپنے خون پسینے سے برصغیر کے علاقے میں مسلمانوں کی عزت وآزادی کے چراغ روشن کئے، اور مختصر یہ ہے کہ یہ ان نفوس قدسیہ کا دیار ہے جو اس آخری صدی میں دین کے مجدّد ثابت ہوئے، اور جنہوں نے قرآن وسنت کی علمی وعملی تفسیر اس آخری دور میں پیش کرکے یہ ثابت کردیا کہ اللہ کا بھیجا ہوا یہ دین آج بھی عمل کرنے والوں کے لئے سدا بہار ہے، ان نفوس قدسیہ نے دیوبند کی سرزمین میں جو دلکشی ورعنائی پیدا کردی ہے، اور اس کی بناء پر اس چھوٹی سی بستی سے عقیدت ومحبت کاجو رشتہ قائم ہوا ہے، وہ خون ونسب کے ہر رشتے سے کہیں زیادہ بلند وبرتر ہے”۔ (جہانِ دیدہ، ص: ٤٩٨ و٤٩٩)
الحمد للہ دوسری قسط مکمل ہوئی، بقیہ ان شاء اللہ آئندہ، اللہ بنائے ہم تماموںکو حق کا نمائندہ اور دین کا کارندہ، آمین یا رب العالمین۔
تحریر : محمد شرف عالم قاسمی خادم حج وعمرہ وزیارت مکہ ومدینہ