شام (جیوڈیسک) اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برائے شام اسٹافن ڈی مستورا نے کہا ہے کہ عالمی ادارہ حلب میں کلورین گیس کے حملے کی تحقیقات کر رہا ہے۔
ڈی مستورا نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”حلب میں کیمیائی گیس کے استعمال کے بہت زیادہ شواہد سامنے آئے ہیں۔اگر اس کی تصدیق ہوجاتی ہے تو یہ ایک جنگی جرم ہو گا۔
شام کے ایک امدادی کارکن خالد حرا نے اطلاع دی ہے کہ حلب شہر کے حزب اختلاف کے زیر قبضہ علاقے میں کلورین گیس کے حملے میں ایک خاتون اور اس کے دو بچے مارے گئے ہیں۔
انھوں نے بتایا ہے کہ شامی حکومت کے ایک ہیلی کاپٹر نے بدھ کی رات حلب کے علاقے زبیدہ میں چار بیرل بم گرائے تھے۔ان میں سے ایک سے کلورین گیس کا اخراج ہوا تھا۔یہ رپورٹ جمعرات کو آن لائن پوسٹ کی گئی ہے اور اس کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں ہے۔یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا فی الواقع کلورین گیس ہی خارج ہوئی تھی۔
ایک اسپتال کے ذرائع اور شہری دفاع کے ایک گروپ نے بھی برطانوی خبررساں ادارے رائیٹرز کو بتایا ہے کہ گیس کے نتیجے میں چار افراد مارے گئے ہیں اور متعدد کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہے۔اس گیس کے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ یہ کلورین ہی تھی اور یہ گرائے گئے بیرل بموں میں شامل تھی۔
حلب میں واقع القدس اسپتال کے مینجر حمزہ خطیب نے بتایا ہے کہ ان کے یہاں زہریلی گیس سے چار اموات ریکارڈ کی گئی ہیں اور اس سے پچپن افراد زخمی ہوئے ہیں۔سات افراد کا اب بھی اسپتال میں علاج کیا جارہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ مریضوں کے کپڑوں اور بیرل بموں کے ٹکڑوں کو تجزیے کے لیے ثبوت کے طور پر اپنے پاس رکھ رہے ہیں۔ شامی رصدگاہ کا کہنا ہے کہ ہیلی کاپٹروں نے حلب کے علاقوں سیف الدولہ اور زبیدہ میں بیرل بم برسائے تھے۔ان سے خارج ہونے والی زہریلی گیس کے نتیجے میں دم گھٹنے سے ایک خاتون اور اس کے بچے کی موت ہوئی ہے۔
شامی فوج کی تردید درایں اثناء شامی فوج کے ایک عہدے دار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر حلب میں حزب اختلاف کے زیر قبضہ علاقے میں کلورین گیس کے حملے کی تردید کی ہے۔اس عہدے دار نے کہا ہے کہ باغی جنگجوؤں نے کلورین گیس کے حملے سے متعلق من گھڑت خبر وضع کی ہے اور شامی فوج کبھی کیمیائی ہتھیار استعمال نہیں کرے گی۔
شامی فوج کے فضائی حملے کا نشانہ بننے والے حلب کے مشرقی حصے پر باغی گروپوں کا قبضہ ہے جبکہ مغربی حصے پر صدر بشارالاسد کی وفادار فوج کا کنٹرول ہے۔گذشتہ دنوں کے دوران شامی فوج اور باغیوں کے درمیان اس شہر میں گھمسان کی لڑائی ہوئی ہے اور اول الذکر کو ابتدائی کامیابیوں کے بعد ہزیمت کا سامنا ہے۔
لڑائی میں شدت کے پیش نظر حلب کے شہری گوناگوں مسائل سے دوچار ہوگئے ہیں اور روس نے گذشتہ روز ہی آج جمعرات سے حلب میں تین گھنٹے کے لیے زمینی اور فضائی حملے روکنے کا اعلان کیا تھا۔اقوام متحدہ کے ایلچی ڈی مستورا کا کہنا ہے کہ روس اب تین گھنٹے کے لیے جنگ بندی کو توسیع دینے پر غور کررہا ہے۔انھوں نے کہا کہ شہرمیں خوراک اور دیگر امدادی سامان پہنچانے کے لیے کم سے کم 48 گھنٹے کے لیے جنگ بندی ضروری ہے۔
انھوں نے کہا کہ روس نے اقوام متحدہ سے مشاورت کے بغیر ہی جنگ زدہ شہر میں اپنے طور پر تین گھنٹے کے لیے جنگ بندی کے فیصلے کا اعلان کردیا تھا مگر اس وقفے کا یہ مطلب ہونا چاہیے کہ کوئی لڑائی نہیں ہوگی لیکن تین گھنٹے کا وقفہ ناکافی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ روس اب اس وقفے میں توسیع کے لیے تیار ہے۔