واشنگٹن (جیوڈیسک) سنہ 2014 میں جب انتخاب میں دونوں صدارتی امیدواروں نے کامیابی کا دعویٰ کیا، افغانستان خانہ جنگی کے دہانے پر تھا۔
یہ الیکشن جسے بیرونی مبصرین نے دھاندلی زدہ اور بے ضابطگیوں کا شکار قرار دیا تھا، اس کا فیصلہ دوسرے مرحلے کے انتخابات کے ذریعے ہوا۔
اس تعطل کا حل اُس وقت ہوا جب امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے مصالحت کی جس کے نتیجے میں اختیارات میں شراکت داری کا سمجھوتا طے پایا اور ملکی انتخابی نظام میں اصلاحات کا عہد کیا گیا۔
دو برس بعد، ملک کے چوٹی کے رہنما اِن إصلاحات کے بارے میں تعطل کا شکار دکھائی دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں پارلیمانی انتخابات کرانے میں تاخیر ہوچکی ہے، جب کہ 2019ء میں اگلے صدارتی انتخابات کے بارے میں ابھی سے پریشانی نے جنم لیا ہے۔
عہدہ سنبھالنے کے بعد، صدر اشرف غنی نے انتخابی اصلاحات کا آغاز کرنے کے سلسلے میں دو صدارتی فرمان جاری کیے تھے۔ قانون ساز ادارے نے دونوں کو مسترد کردیا ہے، جب کہ چند تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس کا زیادہ تر باعث چیف اگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے حامی ہیں، جو غنی کے حریف ہیں، جو تبدیلی کے مخالف بتائے جاتے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ صدر کا دفتر تیسرا فرمان جاری کرنے والا ہے، اور ممکن ہےکہ آئین کی شق 79 کے تحت اسے ماورائے پارلیمان نافذ کیا جائے، جب پارلیمنٹ موسم گرما کی تعطیل پر ہو۔ اس سے انتظامیہ کو یہ گنجائش میسر ہوگی کہ وہ مقننہ کو نظر انداز کر دے، جب پارلیمان چھٹی پر ہو اور ہنگامی صورت حال کا سامنا ہو۔
صدر غنی کے ترجمان نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ نائب صدر دوئم، سرور دانش ایک کمیشن کی سربراہی کر رہے ہیں جو تیسرے صدارتی حکم نامے کا متن تیار کرے گا۔
صدارتی محل کے ترجمان، دعویٰ خان میناپال کے الفاظ میں ’’افغان حکومت ملک میں تبدیلی لانے اور ملک کے انتخابی نظام میں اصلاح کے عزم پر قائم ہے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’تازہ صورت حال یہ ہے کہ وزارت انصاف، عدالت عظمیٰ اور آئینی نظرداری کے کمیشن نے صدر کو مشورہ دیا ہے کہ پارلیمان کی نشست نہ ہونے کی صورت میں، آئین صدر کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ انتظامی حکم نامہ جاری کریں، جسے قانون سازوں کی منظوری کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔
جمعرات کے روز عبداللہ نے اپنے آپ کو اِس متوقع انتظامی حکم نامے سے دور رکھا ہے۔