تحریر: حفیظ خٹک سلام کرتا ہوں قوم پرست رہنما جی ایم سید ، خان عبدالغفار خان کو ان کے بیٹے خان عبدالولی خان کو ، جی میں مکمل ہوش و حواس میں ہوں اور ببانگ دہل اس بات کا اعلان کرتا ہوں کہ میں آپ کے اس پاکستان میں کام کرنے والے محمود خان اچکزئی کو ، اسفندیار ولی خان کو سندھ و بلوچستان کے قوم پرستوں ،سبھی کو سلام پیش کرتا ہوں ، ان کی جدوجہد کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور ان کی کامیابی کیلئے دل کی گہرائیوں سے دعا گو ہوں۔ یہ قوم پرست کامیاب ہوں گے تو یہ ملک نہیں بچے گا یہ ملک تقسیم ہوگا ، اور تقسیم کا یہ سلسلہ ختم نہیں ہوگا بلکہ یہ تقسیم در تقسیم ہوتا رہے گا ۔ جب بنگال ساتھ نہیں رہا اور وہاں کے قوم پرستوں نے اسکو آزاد کرواکر علیحدہ ملک بنا لیا تو پھر بتائیں یہ باقی ماندہ پاکستان بھلا کیسے یونہی رہے گا۔ اس کے بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوں اور اس ایک ملک میں ان قوم پرستوں کے کئی ملک بنیں گے۔ سب کے پھر اپنے اپنے قانون ہونگے۔
قانون کی بات کیا کروں ، کس قانون کی بات کروں یہاں قانون کا صرف نام ہے اس نام کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ ملک حاصل کیا اسلام کے نام پر اور قانون ہے انگریز کا۔ اسلام کے نام پر بننے والے آپ کے اس پاکستان میں اگر اسلام کے نام پر کچھ ہے تو اسلامی پارٹیاں ہیں جو اسلام کے نام پر لوگوں کو جمع کرتی ہیں انہیں بے وقوف بناتی ہیں ، ان کے ذہنوں کے بناتی اور پھر اپنی مرضی سے ان کے ذریعے کام کرواتی ہیں ۔ سیاسی جماعتوں کا بھی حال ایسا ہی ہے ۔ ان میں بھی کوئی ملک سے مخلص نہیں ہے۔ سب کے سب ایک ہی سکے کے دورخ ہیں ۔ غیر سیاسی ، سماجی جماعتوں کا بھی طریقہ مختلف ہے ۔ کوئی انسانیت کے نام پر اپنی دکان چلاتا ہے تو کوئی قومیت پر ، کوئی لسانیت پر تو کوئی مذہبیت پر ، بس میر ی تو دعاہے کہ میں اس ملک سے نکل جاؤں ، بھاگ جاؤں اور کسی بھی بیرونی ملک میں جاکر سیاسی پناہ لوں اور ان سے بھی درخواست کروں کہ اس پاکستان میں میرے بچے ہیں لہذا مجھے اپنے بچے بھی چاہئیں اس لئے میرے بچوں کو بھی بلواؤ تاکہ ہم محنت و مشقت کر کے اس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں اور اس کے عیوض ہم ان سے اپنا محنتانہ وصول کریں۔
نہیں نہیں ، ہر گز نہیں آج میں آپ کی کوئی بات نہیں سنوں گا ۔ اک مدت سے سنتا آرہاہوں آپ کی بڑی بڑی باتیں ، آپ کے بھاشن ، آپ کی نصیحتیں ، آپ کے قصے اور کہانیاں ۔ آج نہ میں نے آپ کو کچھ کہنے دینا ہے اور نہ ہی آپ کی کوئی بات بھی سننی ہے ۔ بہت ہوگیا میرا صبر اب مزید نہیں رک سکتا ، میرا ایک ایک عمل اب آگے کو بڑھے گا میں جو برسوں سے ایک بستر پر بوجھ بنا ہواہوں اب مزید نہیں بنوں گا۔ اب میں دوسروں کے ملک جاکر اپنا علاج پورا کراؤنگا بلکہ ٹھیک ہونے کے بعد آؤنگا اور ایک ایک کو سزا دوں گا۔ عدالت میری ہوگی ،قانون میرا ہوگا ، تفتیش میری ہوگی اور پھر فیصلہ بھی میرا ہی ہوگا۔ سن لیا آپ نے یا نہیں سنا، آج آپ میرے سامنے اس انداز میں بیٹھے ہیں کہ جیسے میری آوازسے میری الفاظ سے میری گفتگو سے میرے جذبات سے آپ کو تکلیف ہورہی ہے ۔ لیکن نہیں روز میں آپ کی سنتا آرہاہوں آج نہیں سنوگا۔ آج آپ سنیں گے اور میں بولونگا آج میرا قانون ہوگا اور آپ اس ملک کے وفادارشہری کی طرح میرے سامنے خاموش کھڑے رہے ہیں ۔ سمجھ آرہی ہے میری باتیں یا نہیں سمجھ آرہی۔۔۔۔
Shikwa
کچھ دیر کیلئے جونہی معروف شاعر منور علی (مزمل علی ) نے خاموشی اختیار کی تو اس لمحے سے فائدہ اٹھانے کیلئے ابھی بات کا آغاز ہی کیا تھا کہ وہ یکدم بول پڑے ، نہیں آپ کی آج میں کوئی بھی بات نہیں سنوگا۔ آج آپ یوں سمجھیں کہ آپ کے منہ میں کوئی زبان نہیں ہے آپ صرف سنتے ہیں بس، بالکل اس طرح جس طرح میں روز روز آپ کو اور آپ جیسے دیگر محب وطنوں کو سنتاہوں۔ جو اس ملک کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔ بات کا آغاز ملک کی تعریفوں سے اور اختتام بھی اسی انداز میں ۔ ہاں میں جانتا ہوں کہ یوم آزادی آنے والی ہے اور آج آپ مجھے ایک بار مجبور کروگے کہ میں کوئی نظم لکھوں ، کوئی تحریر لکھوں اور آپ کے حوالے کروں تا کہ آپ اس کو میرے نام کسی اخبار میں چھاپ دیں اور یوں آپ کا بھی کام ہواور میرا بھی نام ہو۔ نہیں چاہئے آج مجھے اپنا نام ، کوئی دلچسپی نہیں مجھے اپنے نام سے ، میں نے بہت سارے شاعروں کو اپنی شاعری دی جو انہوں نے اپنے ناموں سے چھپوائی اور یہاں تک کیا کہ میری شاعری پر اپنے نا م کی کتابیں چھپوائیں ۔لیکن میں خاموش رہا اور آج تک ان سے کوئی گلہ شکوہ نہیں کیا ۔ لیکن آج میں نے خاموشی کے بت کو توڑ دیا ہے ، جو ظلم میرے ساتھ ہوا ہے ایسا ظلم تو اس بچاری ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ بھی نہیں ہوا ہوگا۔ اس کو آپ کے اس عظیم ملک کے حکمرانوں نے غیروں کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ کیوں بیچا ، اسے اور غیرت تو اس حکمران سمیت دیگر سبھی حکمرانوں کی بھی ختم ہوکر رہ گئی ہے آج تک اس مظلوم کو کسی بھی حکمران نہیں رہاکرانے کی اور اپنے ملک میں لانے کی کوشش نہیں کی ۔ یہ جو اس وقت آپ کے ملک کا وزیر اعظم ہے میاں نواز شریف ، جس کیلئے وہ عافیہ دعائیں کیا کرتی تھیں اور جب وہ اس ملک کا وزیر اعظم بنا تھا تو اس نے گورنر ہاؤس میں بیٹھ کر عافیہ کے اہل خانہ کو بلوایا اور ان سے وعدہ کیا تھا کہ میں اب جب امریکہ جاؤنگا تو عافیہ کو امریکہ کی سرکار سے آزاد کراکر باعزت انداز میں اپنے ساتھ پاکستان لیکر آؤنگا۔ لیکن آج تک اس کا یہ وعدہ وفا نہیں ہوا ۔ جھوٹ ثابت ہوا ، اس کے بعد تو اس نے آج تک عافیہ کا نام تک نہیں لیا ۔ رہائی کیسے دلوائیگا؟
اس لئے میں کہہ رہاہوں کہ آج میری بات ہوگی بس اور میری یہ پہلی اور آخری بات ہے کہ مجھے اس ملک میں نہیں رہنا ہے مجھے اس ملک سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ، مجھے ملک بدر کر دیا جائے یا میں خود باہر نکلنے کی جستجو کروں اور موقع ملتے ہیں میں یہاں سے دور بھاگ جاؤں ۔ میرے ساتھ ظلم ہوا ہے ، اس ملک کی عوام نے ، اس کی پویس نے کسی نے بھی میرا ساتھ نہیں دیا ، میرے حق کیلئے کسی نے بھی آواز نہیں اٹھائی ہے ۔ مجھ جیسے معذور و اپاہج شہری کا کیا معاشرے میں کوئی حق نہیں ہے ۔ میری کوئی زبان نہیں ہے ؟میں کوئی گلہ شکوہ نہ کروں۔ جب کہ میں اس پلازہ کی نام نہاد یونین کو بلا کر دیکھ لیا ، میں نے پولیس کو تحریری شکایت بھی دے کر دیکھ لی۔ لیکن نہ تو یونین والوں نے میری بات پر غور کیا اور نہ ہی پولیس کو میرے ساتھ ہونے والے ظلم میں مدد کرنے کی اسکیم سوجی۔ بتائیں مجھے کہ کیا اب میں اس ملک کا وفادار رہوں ۔اب بھی میں اس کا نام لیکر زندہ باد کے نعرے لگاتا رہوں ، اس مک کیلئے اب بھی میں اوروں سے بحثیں کروں ۔ چیخوں ، چلاؤں ۔۔۔۔
قدرے توقف جونہی انہوں اختیار کیا ، ان سے صرف اتنا پوچھا کہ ہوا کیا ہے ۔ مسئلہ کیا ہے۔ اور یہ بھی آپ بتادیں کہ جو گفتگو اب تک آپ نے کی ہے کیا وہ آپ ہی نے کی ہے ۔میری جانب غور سے دیکھنے کے بعد انہوں نے بیٹھنے کیناکام کوشش کی اور پھر بولے دیکھو ، اے اس ملک کے وفادار شہری ، میری بات ذرا اور غور سے سنو۔ میں اپنی معذوری کے باعث برسوں سے اس فلیٹ میں تنہا رہ رہاہوں۔ میری ذات سے آج تک کسی کو بھی تکلیف نہیں پہنچی ۔ میں نے یونین کے بلز ، یوٹیلٹی بلز ،گھر کاکرایہ سب کچھ دیا ہے کسی دکان کا ااس مکان کا یہ کسی بھی اور طرح کا مجھ پر کوئی قرض نہیں ہے ۔ آپ جانتے ہیں کہ معذوری کے سبب یہاں پر رہائش پذیر ہوں ۔ میرے بچے آتے ہیں میرا خیال رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ میرے دوست احباب بھی آتے ہیں اور ادب کی محفلیں ہوتی رہتی ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود میرے کسی بھی پڑوسی کو آج تک شکوہ کرنے کا موقع نہیں دیا۔ معذوری کے سبب میں چارپائی سے اٹھ نہیں سکتا ۔صفائی کیلئے دیگر کاموں کیلئے میں صفائی کرنے والوں کی اور دیگر دوست احباب کی ذمہ داریاں لگا رکھی ہیں ۔ میں اپنے ہر کام کے عیوض معقول معاوضہ دیتا ہوں کسی کا بھی قرض میں نے اپنے اوپر نہیں رکھا ۔ لیکن اس کے باوجود مجھے اب ایسا لگتا ہے کہ میں اب اپنے ملک میں نہیں بلکہ کسی غیر ملک میں رہتا ہوں ۔ میرے چاروں طرف غیر ملکی جن میں افغانی، بنگالی و دیگر افراد اور ان کے کنبے شامل ہیں وہ سب رہتے ہیں اور ان کا رویہ مجھ معذور کے ساتھ ناقابل فراموش ہے۔ ان کے بچے ہر روز شام کے وقت میرے کمرے میں پتھر پھینکتے ہیں مجھ پر حملہ آور ہوتے ہیں اور مجھے بے انتہا تکالیف کا موجب بنتے ہیں۔
Injustice
اس کے باوجود میں انہیں دینی انداز میں ایک بڑے بھائی کی حیثیت سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں ۔ لیکن نتائج ندارد۔ تنگ آکر میں نے رہائشی پلازے کی مقامی یونین کو پیش آنے والے واقعات کی شکایت کی ،اس کے ساتھ پولیس تھانے کے چوکی انچارج کو تحریری طور پر شکایت کی لیکن نتیجہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ چوکی انچارج کے پاس اتنی فرصت نہ تھی کہ وہ آکر میری دادرسی کرتا ، بہرحال میں برداشت کرتا رہا اور ابھی تک کر رہاہوں ۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میرا دل ان رویوں سے مجموعی طور پر مایوسی کی جانب بڑھ رہا تھا ۔ اسی دوران ایک جمعدار جس کے ذریعے میں اپنے فیلٹ کی صفائی کرواتا تھا اور اس کو اس کے بدلے معاوضہ دیا کرتا تھا اس نے بھی میرے ساتھ ظلم کی انتہا کر دی۔ میری موجودگی میں میرے موبائل فون لیکر بھاگ گیا ۔ وہ جانتا تھا کہ میرا سب سے رابطوں کا ذریعہ یہی موبائل فون ہے اس کے باوجود انہوں نے یہ رویہاختیا ر کیا ۔ اس واقعے کے بعد مجھ پر اس کے بہت ہی برے اثرات مرتب ہوئے اور زندگی میں پہلی بار مجھے اپنے معذور ہونے کا بے حد افسوس ہوا ۔ اس کے بعد پڑوسیوں ، پلازہ والوں ، یونین حتی کہ پولیس تک نے میری مدد نہیں کی۔ اب اس کے بعد میرے پاس صرف یہی رہ گیا تھا کہ میں اس ملک کو ہی چھوڑکر اس سے باہر چلاجاؤں ۔ میں نے اس دوران ان تمام محالفین کو دیکھا ان پر غور کیا وہ جی ایم سید تھا یا ولی خان ، وہ اچکزئی ہے یا کوئی اور مجھے یہ بالکل ٹھیک لوگ محسوس ہوئے وہ سب اس ملک محالفت بلاوجہ نہیں کرتے کوئی تو وجہ ہے نا اور اب میرے ساتھ ہونے والے مذکورہ صورتحال کے بعد مجھے ایسا لگتا ہے کہ ان کی وجوہات درست ہیں اس ملک کو اب اس حالت میں نہیں رہنا چاہئے ۔ جو ا س ملک کا سربراہ ہے جس اسے اپنے ملک کی کوئی فکر نہیں ، وہ اپنا علاج تک کروانے کیلئے ملک سے باہر جاتا ہے تو پھر اور کس کو اس ملک کی فکر ہوگی۔ فوجی جرنیل کو اس ملک والے اور دنیا والے اچھا نہیں سمجھتے لیکن میں تو اس کو بھی سلام کرتاہوں جس نے عبدالستا ر ایدھی جیسے عظیم فرد کے جنازے میں شرکت کی اور اسے سلامی تک پیش کی۔ میں اس فوجی کو سلام پیش کرتا ہوں لیکن اس کو یہ بھی اپیل کرتا ہوں کہ وہ مجھے انصاف فراہم کرئے۔
ہاں ہاں اب آپ مجھے معلوم ہے کہ آپ مجھے میرا ماضی یاد دلائیں گے ، وہ ماضی جو اب میرا ماضی ہے ہاں میں برملا اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ میں نے صرف پاکستان کا پرچم اٹھانے کیلئے جب قدم بڑھائے تو مجھے مار کر زخمی کر دیا گیا ۔ قومی پرچم کا احترام تھا یا اس ملکسے محبت کے نعرے ، وہ میری تمام تر تقاریر تھیں یا پھر میرا کوئی اور رویہ اس ملک سے محبت کا ، سب مجھے یاد ہیں لیکن اب میں ان پر کوئی بات نہینکرنا چاہتا اور نہ ہی ان کو دہرانا چاہتا ہوں ۔ جب میں نے اچھی صحت کی حالت میں اس ملک کیلئے قربانیاں دیں اور معذوری کے بعد بھی اس سلسلے کو جاری رکھا تو اس کے باوجود بھی میرے ساتھ یہ ظلم کیوں کیاگیا ۔ مجھے انصاف کیونکر فراہم نہیں کیا گیا۔میرا اب ایک ہی نعرہ ہے ، ایک ہی مطالبہ ہے اور ایک ہی بات ہے وہ یہ کہ مجھے انصاف فراہم کیا جائے یا پھر مجھے اس ملک سے باہر بھیج دیا جائے ۔ اس بات کا ، اس سوال کا جواب آپ دیں یا اس ملک کا صدرو وزیر اعظم دے اور کسی کے پاس جواب نہیں ہے تو پھر مجھے خاموشی کے ساتھ رخصت کر دیا جائے۔
Pakistan
وہ شخص جو پاکستان سے محبت پر انسیت پر میری باتیں سنا اور سمجھا کرتا تھا ،اور اپنے قصے بھی سنایا کرتا تھا آج اس انداز میں مجھ سے گویا ہوگا ، نہیں مجھے اس بات کی توقع نہ تھی ۔ بہرحال مزمل صاحب کی گفتگو کے لئے جواب کو ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ کچھ اور مہمان آگئے اور ان کے آتے ساتھ ہی یوم آزادی کی تیاریوں اور تحریکوں کی باتیں شروع ہوگئیں۔ مزمل صاحب کو جواب چاہئے یا پھر اس ملک سے فرار چاہئے ، مجھے نہیں معلوم کیا کچھ ہونے والا ہے ان کے ساتھ ، آیا انہیں ان کے ساتھ ہونے والے سوالات کے جوابات مل جائیں گے یا پھر وہ ملک سے باہر چلے جائیں گے۔دونوں صورتوں میں دل کو اطمینان نہیں رہے گا ۔ ہونا ان کے ساتھ انصاف چاہئے اور یہی انصاف ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ بھی چاہئے اور یہ انصاف اس ملک کے رہنماؤں کو ہی کرنا چاہئے۔ عوام کی فکر صرف ووٹوں کو لیتے وقت تک نہیں رہنا چاہئے بلکہ ان کا احساس ان کو پہنچنے والے ہر طرح کی تکلیف میں اک ہمدرد کی طرح ہونا چاہئے اور یہاں بھی صرف احساس نہیں ہونا چاہئے بلکہ عملی اقدامات ہونے چاہئیں۔ یہی تقاضا ہے اس وقت کا اور آنے والے وقت کا۔۔۔۔۔