تحریر : محمد عتیق الرحمن پچھلے دنوں جب مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ سکھوں کو بھارت سے آزادی کے نعرے لگاتے دیکھاتو عام پاکستانیوں کی طرح اچنبھا نہیں ہوا ۔ کشمیری قیام پاکستان سے قبل ہی پاکستان کے ساتھ الحاق کرچکے تھے لیکن سکھ کمیونٹی نے ہندو ئوں کا ساتھ دے کر اپنے اوپر ظلم کیا جس کوانہوں نے قیام پاکستان کے فوراََ بعد محسوس کرلیا تھا۔رسالہ سنت سپاہی امرت سر (جون 1948ئ) میں پنجاب کی تقسیم کے متعلق لکھا ہے کہ ”پاکستان کے مطالبہ کو لنگڑاکرنے کی غرض سے شرومنی اکالی دل نے آزاد پنجاب اور سکھ سٹیٹ کا مطالبہ کیا ۔۔۔سکھوں نے مشرقی پنجاب کو پاکستان سے الگ کرکے ہند میں شامل کرنے کے لئے اسمبلی میں اس بات کے حق میں فیصلہ دیا ۔ جس میں پاکستان کی سرحد دہلی پرہونے کی بجائے واہگہ مقررہوئی ”پنجاب وغیرہ کی تقسیم سے جہاں پاکستان کو نقصان پہنچاوہیں سکھوں کی ٹانگیں بھی اسی تقسیم نے توڑ دیںجس کا انہیں خمیازہ بھگتنا پڑا۔
سردارکپور سنگھ بانی پاکستان محمد علی جناحکی دوراندیشی کے وہ الفاظ جو ساچی ساکھی ایڈیشن دوم کے صفحہ نمبر 144کے حاشیہ میں درج ہیں بیان کرتے ہیں ”1947ء ماہ اگست کے شروع میں پاکستان کے بانی مسٹر جناح دہلی میں اپنے ایک سکھ دوست سرداربہادر سرسوبھا سنگھ سے ملنے کے لئے گئے اودوران گفتگو کہا :۔’سکھوں نے اپنا راج نہ لے کر بڑی بھاری غلطی کی ہے ۔’سرسوبھا سنگھ نے جواباََکہا ‘ہم نے ہندوئوں پر اعتبار کرکے اور ان سے اپنی قسمت جوڑ کر اچھا ہی کیا ہے ۔ہندو ہمارے ساتھ دھوکہ یااحسان فراموشی نہیں کریں گے’ مسٹر جناح نے جواب میں کہا کہ “Sardar Bahadur, you know taht Hindu only as your co-slave; Now, you will know, the real Hindu when he becomes your masters and you become his slave.””سرداربہادر ۔ تم نے ہندوکو ابھی اپنے ساتھ غلامی کی حالت میں دیکھا ہے۔ اب تم کو ہندوئوں کی اصل ذہنیت کاپت چلے گا جبکہ وہ تمہارا آقا ہوگا اور تم اس کے غلام ”بانی پاکستان کے الفاظ کی تصدیق سردار آتما سنگھ ایم ۔ایل ۔اے کپورتھلہ نے مندجہ ذیل الفاظ میں کی ”اصل بات یہ ہے کہ ہندوذہنیت اور تعصب کا نقشہ سکھوں نے 1947ء کے بعد ہی دیکھا،۔
وہ ہندو جب غلام تھا تو بڑا تابعدار تھا ۔جو ہمیشہ سکھوں کی برتری اور فوقیت کو تسلیم کرتاتھا ۔حکومت کی طاقت ملتے ہی یکدم بدل گیا ۔خودکو بھارت کا حاکم اور بادشاہ اور سکھوں کو اپنی رعیت اور غلام کہنے لگ پڑا ۔اس کے دل میں ہندو مذہب پھیلانے کا جذبہ بڑھا ۔اس نے تعصب کے ماتحت سکھوں کو ہرلحاظ سے انکی ہمت پست کرنے کے لئے انہیں ”دوبیل”بنانے کی غرض سے قسم قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کردئیے ۔ اس کے دل میں تھا کہ جس طرح ہندوئوں نے ہندوستان سے پیداشدہ بدھ دھرم اور جین دھرم کو ختم کردیاتھا ۔اسی طرح سکھ دھرم کوبھی ختم کردیا جائے گا ۔۔۔یہ تھی ہندوذہنیت کی اور ہندوتعصب کی سوچ اورپلاننگ(گورودوارہ گزٹ 1981)”توسیم برصغیر کے بعد ایسی مثالیں بھی سیکولر بھارت میں ملتی ہیں جب کسی محکمہ میں کوئی سکھ ملازمت حاصل کرنے کے خیال سے گیا تو ہندوافسر نے سکھ کے سر پر کیس (بال) ہونے کی بنا پر نوکری دینے سے انکار کردیا۔
Sirdar Kapoor Singh Ji
سردار کپور سنگھ جی ڈاکٹر محمد اقبال کے ساتھ 1928ء یا 1929ء میں ہوئی ذاتی بات چیت کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ”مسلمان توصرف اپنا تحفظ چاہتے ہیں کہ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد تمام حکومت کی طاقت ہندوئوں کے ہاتھ آنے کے بعد مسلمانوں کا وہی حشر نہ ہو جو سپین کی غرناطہ کی لڑائی میں مسلمانوں کی شکست کے بعد ہواتھا ۔جبکہ سپین ملک میں سے سب مسلمان یاتو جلا وطن کردئیے گئے تھے یا عیسائی بنالئے گئے تھے ”یہ ایک واضح حقیقت ہے مسلمانوںکے ایک الگوطن حاصل کرنے کا مقصداپنا تحفظ تھا ۔کسی بھی مسلمان کے ذہن کے کسی بھی کونے میں یہ بات ہرگز نہ تھی کہ کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے کو اپنا غلام بنایاجائے گا اور اس کی ثقافت ،مذہبی اقدار یا تاریخ کو مسل دیا جائیگا ۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی پاکستان میںسکھ کمیونٹی ،عیسائی کمیونٹی ودیگر اقلیتی مذاہب کے ماننے والے بغیر کسی روک ٹوک کے اپنی ثقافت ،مذہب اور تاریخ کے مطابق عمل پیرا ہیں اور ان کی عبادت گاہیں مسلم اکثریتی علاقوں میں بھی محفوظ و مامون ہیں۔
جبکہ بھارت میں مسلمانوں کو تو ایک طرف رکھئے سکھوں کی عبادت گاہیں تک محفوظ نہیں ہیں جس کی مثال سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل کی ہے جسے جون1984ء میں آپریشن بلیو سٹار کے ذریعے شدید ترین نشانہ بنایا گیا اور اس کی بے حرمتی کی گئی اورجانی نقصان اس کے علاوہ تھا ۔اس کا سکھوں کوشدید صدمہ پہنچا یہی وجہ ہے کہ چار ماہ بعد ہی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو اس کے سکھ محافظوں نے قتل کردیا ۔ جس کے بعد سکھ مخالف مظاہرے اورپرتشدد واقعات ہوئے جس میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق قتل ہونے والے سکھوں کی تعداد 10سے17ہزار کے درمیان ہے ۔حالت یہ تھی کہ نالیاں اور گٹر بند ہوگئے اور جب کھولے گئے تو سکھوں کی لاشوں سے اٹے پڑے تھے ۔ہندوبلوائیوں نے مبینہ سرکاری سرپرستی میں سکھوں کا قتل عام کیا۔
تقسیم برصغیر کے وقت مسلمانوں پر جو ظلم وستم ہندوئوں کے ساتھ سکھوں نے کیا اس کی مثا ل شاید ہی برصغیر کی تاریخ میں کہیں ملے۔سکھوں نے شہروں ،دیہاتوں ،گلیوں اوربازاروں میں خون مسلم سے ہولی کھیلی اور مسلمانوں کا بے پناہ خون بہایا ۔ا ن کی طرف سے پاکستان مردہ باد کے نعرے لگائے گئے اور کرپانیں لہرالہرا کر مسلمانوں کو ڈرایا گیا ۔جان بوجھ کر کانگرسی قیادت نے سکھ لیڈر ماسٹر تاراسنگھ کومسلم قوم کے خلاف انتشار پھیلانے میں لگادیا جس سے عام سکھ اورمسلمان شدید متاثر ہوئے ۔سکھ ودوان رسالہ پریت لڑی مئی 1966ء میں لکھتے ہیں کہ ”بٹوارے کے وقت خواہ کوئی بھی سبب تھا ۔ بے گناہ مسلمان آدمیوں ،عورتوں اور بچوں پر کرپان اٹھانا سکھی شان کے مطابق نہیں تھا۔”اسی سلسلہ میں سکھ مذہب کی تعلیمات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے ”سکھ کی کرپان مستورات،بچے ،بوڑھے پر نہیں اٹھے گی ۔بے ہتھیار دشمن پر اس کا استعمال جائز نہیں۔
khalistan
”مسلمانوں کے کشت وخون اور قتل وغارت کے بعد جب سکھوں نے بھارت میں نظر دوڑائی تو محسوس ہوا کہ وہ ہندوسیاست کی دلدل میں پھنس چکے ہیں اور عجیب قسم کی بے بسی و لاچاری ان کا مقد ر بن گئی ہے اس وقت جو نعرے ان کے کانوں میں پڑے و ہ اس قسم کے تھے جو1951ء کے دورانیے کے رسالوں ،اخباروں اور دیگر بھارتی پنجاب کی کتابوں میں ملتے ہیں ۔’کڑاکچھ تے کرپان ۔بھجوانہاں نوں پاکستان”ہندی،ہندو،ہندوستان۔نہ رہے سکھ نہ رہے مسلمان”کڑا جُوڑا راویوں پار’اور ‘ہندو نے للکارا ہے ۔ یہ پنجاب ہمارا ہے ‘ان نعروں سے بھارتی سکھوں کی بے بسی ،بے کسی اور مجبوری واضح ہوتی ہے ۔مسلمان جو آگ و خون کا دریا عبور کرکے پاکستان پہنچے اور جو دیگر مذاہب کے ماننے والے پاکستان میں تھے وہ کسی نہ کسی طرح کانٹے سے لے کر ایٹم بم تک کا سفر طے کرتے رہے جس میں انہیں سازشی عناصر سمیت آستین کے سانپوں سے بھی واسطہ پڑرہاہے ۔آج بھی اگر پاکستان میں کسی اقلیت پر زیادتی ہوتی ہے تو سب سے پہلے مسلمان اس اقلیت کی دادرسی کے لئے آگے بڑھتے ہیں۔
آج بھی پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ننکانہ شہر میں سکھوں کا گردوارہ اسی شان سے کھڑا ہے اور بھارتی سکھوں سمیت پوری دنیا سے سکھ اپنی عبادت گاہ میں بغیر کسی خوف و خطرے کے آتے ہیں مسلمانوں کاپاکستان ایک امن پسند ملک ہے جس میں کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے کو ظلم وستم کا نشانہ بنانا ریاستی شیوانہیں اور نہ ہی یہاں گولڈن ٹیمپل جیسے واقعات ہوتے ہیں بھارتی سکھ اس وقت تحریک خالصتان کے لئے پھر سے جدوجہد کررہے ہیں۔
جہاں کشمیری پچھلے ایک ماہ سے زائد بھارتی جبرواستبداد کے سامنے سیسیہ پلائی دیوار بن کرکھڑے ہوچکے ہیں وہیں سکھ کمیونٹی کا خالصتان کی تحریک میں جوش وولولے کے ساتھ کھڑے ہونا اس بات کی امید دلاتا ہے کہ بھارتی ظلم وستم کے دن تھوڑے ہیں ۔ اس بار سکھوں کو ہندوچانکیہ کی مکاری سے ہوشیار رہتے ہوئے تقسیم برصغیر کے وقت کی دھوکہ دہی اور گولڈن ٹیمپل پرہوئے حملے سمیت دیگر مظالم کو سامنے رکھتے ہوئے اس بار اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا چاہیے۔