تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی تاریخ انسانی کا ورق ورق کھنگال لیں پو ری تاریخ میں جانثاروں کا جو والہانہ پن عقیدت و احترام اور جان ہتھیلی پر ہر وقت بلکہ جان دینابہت بڑی سعادت یہ شان صرف اور صرف سرور دو جہاں ۖ کے حصے میں آئی اِس کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ آپ ۖ جیسا نہ کوئی آیا اور نہ ہی کو ئی آئے گا آ پ ۖ جیسا تو دور آپ کے قدموں کو چھونے والے ذرات کی شان کو بھی کو ئی اور انسان نہیں پہنچ سکتا غیر مسلم جا نثاروں کی عقیدت اور جان قربان کر دینے والے جذبات کو دیکھ کر حیران اور حسد کا شکار ہو جا تے ہیں حا سدین یہ بھول جا تے ہیں کہ آقا ئے دو جہاں ۖ کی محبت ما لک خدا نے ہر انسان کی تخلیق یا خمیر میں ودیعت کردی ہے یہ ایسی چنگا ری ہے کہ جیسے ہی آقا ۖ کی حرمت پر ہلکی سی بھی زد پڑتی ہے تو یہ آگ کے بھا نبھڑ کا روپ دھا ر لیتی ہے اور پھر مخالفین کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے کر ہ ارض پر ڈیڑھ ارب مسلمان ہر وقت اپنی جا ن پیا رے آقا ۖ پر قربا ن کر نے کو تیا ر رہتا ہے اپنی جا ن کے علا وہ اپنی اولاد اور اپنا ما ل بھی خو شی خو شی وارنے کو تیا ر رہتا ہے ہر مسلمان اپنی محبوب سے محبوب چیز آقا ئے دو جہاں ۖ پر وارنا اپنی سعادت سمجھتے ہیں سرور دو جہاں ۖ کی زندگی میں جب بھی کو ئی نا زک مو قع آیا تو جا نثاروں کی ایک فوج آپ ۖ کے گرد جمع ہو ئی اور پروانوں کی طرح شہا دت کے رتبے پر فا ئز ہو تے گئے اور قرآن مجید کی آیا ت کی عملی تفسیر بنتے گئے ارشاد با ری تعالی سورة المجا دلہ تر جمہ :” تم نہ پا ئو گے ان لوگوں کو جو یقین رکھتے ہیں اللہ اور پچھلے دن پر کہ دوستی کریں۔
ان سے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول ۖ سے مخا لفت کی اگرچہ وہ ان کے با پ یا بیٹے یا بھا ئی یا کنبے والے ہوں یہ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش فرما دیا اور اپنی طرف کی روح کی مدد کی اور انہیں با غو ں میں لے جا ئے گا جن کے نیچے نہریں بہتیں ان میں ہمیشہ رہیں اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی یہ اللہ کی جما عت ہے اللہ ہی کی جما عت کامیا ب ہے ”۔ سرور کو نین ۖ کا ہر صحا بی ہر وقت آپ ۖ پر اپنی قیمتی اور محبوب چیز قربا ن کر نے کو تیا ر رہتا تھاحضرت ابو عبیدہ بن البحراح ہر وقت اِس کو شش میں رہتے تھے کہ آقا ۖ اور اللہ تعا لی کے لیے سب کچھ نچھا ور کر دوں غزوہ بدر میں مشرکین مکہ کے ساتھ آپ کا والد عبداللہ بن جراح بھی جنگ لڑنے کے لیے آیا ہوا تھا وہ آپ کے ایما ن لا نے کی وجہ سے آپ سے بہت زیا دہ نا راض بھی تھا غصے کا زہر با پ میں اِس قدر پھیل چکا تھا کہ دوران جنگ وہ با ر بار حضرت ابو عبیدہ کو نشانا بنا تا حضرت ابو عبیدہ پہلے تو اُس کو نظر انداز کر تے رہے لیکن وہ پھر بھی با ز نہ آیا تو جذبہ ایما نی اور عشقِ رسول ۖ سے معمور لہجے میں بو لے ‘ ‘ لا ئو اِس دشمن خدا کا کا م کر ہی ڈالوں یہ کہا اور پھر ایسا کا ری مہلک وار کیا کہ عبداللہ بن جراع کا خا تمہ کر دیا ۔
Marka Badar
معرکہ بدر تاریخ انسا نی کا بہت اہم اور فیصلہ کن مو ڑ تھا میدان بدر کو دیکھ کر بو ڑھا آسمان ہوا ئیں فضا ئیں بھی حیران پریشان تھیں کیونکہ قریش آپس میں ہی ایک دوسرے کے مقا بلے پر تھے ایک طرف شاہ مدینہ کے متوالے تھے جبکہ دوسری طرف خدا کے دشمن یہ آپس میں قریبی رشتے دار تھے ایک طرف بیٹا تو دوسری طرف با پ ایک طرف چچا تو دوسری طرف بھتیجا ایک طرف سسر تو دوسری طرف داماد بھا ئی کے سامنے اپنا سگا بھا ئی تھا ایک طرف دشمن خدا اور تو دوسری طرف رسول کریم ۖ کے پروانے جن کے سامنے سب قرابتیں اور رشتے ہیج تھے ۔ دوران جنگ جب یار غا ر حضرت ابو بکر صدیق نے اپنے ہی سگے بیٹے عبدالرحمن کو دیکھا تو غصے اور جوش سے اُس کی طرف قتل کر نے کے لیے بڑھے تا کہ اپنے بیٹے کا کام تما م کردیں لیکن جب نبی رحمت ۖ نے اپنے محبوب دوست کو دیکھا تو آپ کو روک دیا اسطرح مجبو را حضرت ابو بکر صدیق رک گئے بعد میں حضرت عبدالرحمن ایمان کے رنگ میںرنگے گئے تو ایک دن اپنے والد گرامی سے کہا با با جان بدر کے دن آپ کئی مر تبہ میرے تیر کی زد میں آئے مگر میں نے اپنا ہا تھ روک لیا قربان جا ئیں۔
حضرت ابو بکر پر بو لے خدا کی قسم اگر مجھے رسول اللہ ۖ نے روکا نہ ہو تا تو میں اپنا ہا تھ کبھی نہ روکتا ۔ اِسی دن حضرت عمر فاروق نے جا نثا ری اور شجا عت کے بہت سارے کا رنا مے دکھا ئے دوران جنگ آقا دو جہاں ۖ کے سامنے سیسہ پلا ئی دیوار کی طرح ڈٹے رہے بہت سارے کفا رکو جہنم رسید کیا اللہ کے رسول ۖ کے عشق میں آپ کی دیوانگی اور جانثا ری اُس دن پو رے عروج پر تھی آپ کے مقا بلے پر جو بھی دوست عزیز اور رشتے دار آیا اُس کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا حضرت عمر فاروق کا ایک خا ص خدمت گار مہج بھی اِس جنگ میں کفا رکی طرف سے آیا ہوا تھا آپ کے سامنے آیا تو اُس کی خدمت اور وفاداری کو نظر انداز کر تے ہو ئے اُس کو سر تن سے جدا کر دیا اور پھر اہل جنگ نے حیرت سے دیکھا کہ آپ کا ماموں عاص بن ہشا م بن مغبرہ آپ کے سامنے آیا اور آپ اُس کو قتل کر نے کے لیے دیوانہ وار اُس کی طرف بڑھے تو ماموں حیران اورخو فزدہ ہو کر چلا یا اور میرے بھا نجے کیا تو ہی مجھے قتل کر ے تو مرادِ رسول ۖ نے فرما یا ” ہاں اللہ اور رسول اللہ ۖ کے دشمن میں ہی تیرا کام تما م کروں گا۔
Marka Badar
تلوار کے تیز وار سے اُس کا سر تن سے جدا کر دیا اور کہا ” جو اللہ کا دشمن ہے وہ ہما را دشمن ہے ”حضرت عبیدہ بن الحا رث رسول کریم ۖ کے چچا زاد بھا ئی حا رث بن عبدالمطلب کے بیٹے تھے ابتدا ء میں ہی اسلام کی دولت پا ئی رسول اقدس ۖ سے بہت زیادہ محبت کر تے تھے محبت دیوانگی کی حدوں کو چھو تی تھی ہر وقت آقا ۖ پر قربا ن ہو نے کو تیار رہتے تھے غزوہ بدر میں جب ولید بن عقبہ نے مقا بلے کے لیے کسی کو طلب کیا تو رسول اللہ ۖ نے اُنہیں مقا بلے کے لیے بھیجا یہ بہت بہا دری اور شجا عت سے لڑے لیکن موقع پا کر ولید نے سخت وار کیا کہ اُن کا پیر کٹ گیا حضرت علی اور حضرت حمزہ نے بڑھ کر ان کی مدد کی ولید کا کام تمام کیا اور اُنہیں میدان جنگ سے اٹھا لا ئے نبی رحمت ۖ نے انہیں حو صلہ دیا لیکن اُن کا جسم زخموں سے چور تھا زندگی بچنے کی امید کم تھی لیکن زخمی حالت میں بھی چہرے پر عشق ِ رسول ۖ کا نو ر پھیلا ہوا تھا آپ ۖ پر قربا ن ہو نے کا نشہ اُن کے وجود سے چھلک رہا تھا سرتا ج الانبیاء ۖ کے چہرہ مبارک کو عقیدت و احترام سے دیکھا اورعرض کیا یا رسو ل اللہ ۖ چچا ابو طا لب کہا کر تے تھے ۔ ترجمہ : ہم محمد ۖ کی حفا ظت کریں گے یہا ں تک کہ ان کے اردگرد ما ریں جا ئیں اور اپنے بچوں اور بیویوں سے غا فل ہو جا ئیں گے آج اِس قول کا ان سے زیا دہ مستحق میں ہوں ۔ حضرت عبیدہ بن الحا رث شدید زخموں کی تاب نہ لا تے ہو ئے رسول دو جہاں ۖ کے قدموں میں ہی شہا دت کے عظیم رتبے پر فا ئز ہو گئے اور عشق کی وہ عظیم قندیل روشن کر گئے کہ جس کی روشنی صدیوں تک اہل عشق کے سینوں کو روشنی بخشتی رہے گی صحابہ کرام میں آپ ۖ پر جان قربا ن کر نے کاجذبہ دیوانگی کی حدوں کو چھو تا تھا کہ صحابہ کرام ایک دوسرے سے ضد کر تے کہ مجھے یہ عظیم سعادت دی جا ئے ہر کو ئی اپنی جان فدا کر نا چاہتا تھا۔
حضرت سعد بن ختیمہ ایک نو جوان انصاری تھے سرور دوجہاں ۖ جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لا ئے اور پھر معرکہ بدر پیش آیا تو گھر گھر میں میدان جنگ میں جا نے اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کر نے کی با تیں ہو نے لگیں بھا ئی بھائی با پ بیٹے ایک دوسرے سے ضد کر نے لگے کہ میدان جنگ میں جائوں گا آقا ۖ کی قربت اور جانثاری کا کو ئی بھی مو قع اہل مدینہ ہا تھ سے جا نے نہ دیتے بلکہ ایک دوسرے کی منت سما جت کر تے کہ مجھے یہ سعادت لینے دی جا ئے جب بدر کے میدان کی تیا ری شروع ہو ئی تو حضرت سعد بن ختیمہ کے والد نے کہا بیٹا ہم دونوں میں سے ایک شخص کا گھر پر رہنا ضروری ہے اِس لیے تم گھر پر رہو میں میدان جنگ میں جا تا ہو ں تم اہل گھر اور گھر کی حفاظت کی ذمہ داری پو ری کرو تو عشقِ رسول ۖ میں ڈوبے ہو ئے حضرت سعد نے جواب دیا ابا جان کیونکہ معا ملہ رسول اللہ ۖ کی ذات مبا رکہ کا ہے آپ ۖ پر قربا ن ہونے اور شہا دت پانے کا مو قع ہے اِس لیے میں اِس عظیم مو قع کو کسی بھی صورت چھو ڑنا نہیں چاہتا اگر جنت کے علا وہ کسی اور چیز کی با ت ہو تی تو ضرور آپ کو ترجیح دیتا مجھے اللہ تعا لی سے امید ہے کہ مجھے آقا دو جہا ں ۖ پر قربا ن اور شہا دت کی نعمت ملے گی اِس لیے میں میدان بدر ہر صورت جانا چاہتا ہوں تو با پ بو لا میں بھی یہی سوچ رہا ہوں کہ اِس عظیم نعمت اور انعام کا موقع ہے اِس لیے میں اِس کو نہیں چھوڑنا چاہتا اب ہم دونوں چاہتے ہیں تو ہم آپس میں قرعہ ڈال لیتے ہیں اللہ جس کے حق میں فیصلہ کر ے قرعے میں حضرت سعد کا نام نکلا میدان میں آپ اِس بہا دری اور شجا عت سے لڑے کہ ہر کو ئی عش عش کر اٹھا اور دوران جنگ ہی شہا دت کے رتبے پر فا ئز ہو کر قیا مت تک کے لیے امر ہو گئے ۔
PROF ABDULLAH BHATTI
تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956