تحریر:عتیق الرحمن، لاہور دنیاکے سبھی ممالک عمومی اور اسلامی ممالک خصوصی طور پرایک طویل مدت سے قعر مذلت میں مبتلا نظر آتے ہیں ۔جس کی متعدد شکلیں اور صورتیں متعارف ہوچکی ہیں۔کہیں سیاسی و معاشرتی بدامنی و استحصال کی لعنت ہے تو کہیں کرپشن و لوٹ کھسوٹ کی ریل پیل ،کہیں ظلم و جور کا بازار گرم ہے تو کہیں عدل و مساوات کی کمیابی ،کہیں خودکشی و قتل و قتال اور قانون کو ہاتھوں میں لینے کی عادت تو کہیں دووقت پیٹ کی بھرتی کے لئے اپنی دوشیزائوں کی فروخت بازاری،کہیں سیاست تو کہیں مذہب کے ٹھیکہ داروں نے انسانیت کی فکری و نظری آزادی کو سلب کررکھا ہے تو کہیں فوجی و جمہوری طاقتوں نے جبرواستبداد کا شکنجہ عوام پر کس لیا،کہیں دہشت گردی کے خونچکاں واقعات ہیں تو کہیں انسانوں کو تاابد غلام رکھنے کے لئے سیاسی و قومی،لسانی و مذہبی گروہوں میں بندربانٹ دیاگیا۔یہ سب تباہی و بربادی اور تقھقرو ھبوط صرف اس لئے ہے کہ ہم نے باوجود اپنے آپ کو اسلام جیسے آفاقی و عالمی تاامروز رہنے والے دین سے تعلق کا راگ الاپتے نہیں تھکتے مگر ہم اسی دین حق کی اساسی و بنیادی تعلیمات سے موانحراف برتتے ہیں۔انہیں امراض و بیماریوں کے ظہور و وجود میں آنے کا سبب خود باری تعلی نے یوں ذکر کردیا کہ جو لوگ میرے ذکر(قرآن )سے منحرف ہوں گے تو میں ان کی معیشت کو تنگ کردوں گا ۔ایسا کیوں نہ ہو کہ معاشرے نے اس قبیح فعل کو ببانگ دہل اور کھلی اعلانیہ بغاوت کے طور پر سود(ربا) کو اپنے اوپر حلال کرلیا جبکہ اسی سے متعلق اللہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا کہ سود خور اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کے لئے کمربستہ ہوجائیں۔
سود کیا ہے؟ سود وزن کی جانے والی یا کسی بھی پیمانہ سے ناپی جانے والے ایک جنس کی چیزیں اور روپے وغیرہ میں دوآدمیوں کا اس طرح معاملہ کرنا کہ ایک کو عوض کچھ زائد لوٹایاجائے اسی کو انگریزی میںInterestکہتے ہیں۔اسی طرح بینک سے قرض لینے یا اس میں جمع شدہ مال پر پہلے سے طے شدہ منافع حاصل کرنا بھی سود ہے۔سود ی معیشت ایک ایسا مذل عمل ہے جو تمام پوری دنیا میں بڑی تیزی کے ساتھ فروغ پاتا جارہاہے۔سودی لین دین کی دلدل میں انسانیت کے سبھی طبقات دھنسے ہوئے ہیں۔اس سودکی نحوست و مضمرات سے تغافل کے نتیجہ میں معاشرے کے انفرادی و اجتماعی ادارے ذلت و پستی اور تنگی و بے سکونی سے دوچار ہیں۔معیشت کی گراوٹ و ناکامی کا سبب بھی سودی معاملات کا جاری رکھنا ہے کیوں کہ رب رحمن نے سود خوروں سے اپنی اور اپنے نبی ۖ کی طرف سے جنگ کا اعلان جو کردیا ہے۔ربا ایک ایسا لاعلاج مرض ہے جو مال و رزق میں تنگی کا باعث بنتاہے اور اسی کے ساتھ مال و دولت سے برکت بھی جاتی رہتی ہے۔تمام انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات میں سود و نفع خوری کی سخت حرمت کے احکام موجود ہیں۔بدقسمتی کی بات ہے کہ موجود ہ اسلامی ممالک کی معیشت و کاروبار کی بنیاد بھی اسی سودی نظام پر قائم ہے ۔اسی لئے لازمی ہے کہ اس اہم موضوع پر بات کی جائے اور کے نقصانات و مسائل سے ہر مسلمان و انسان کوباخبر ہونا چاہیے تاکہ وہ لین دین کے معاملہ میں سودکے اثرات و شروراور ضرر سے محفوظ رہ سکیں۔
Usury
سود ی لین دین پر میثاق مدینہ کا ٹوٹنا: نبی اکرمۖ نے مکہ سے ہجرت مدینہ کی طرف کی اور وہاں پہنچ کر جن اہم اقدامات کا فیصلہ کیا ان میں مسلمانوں کی حیثیت کو تسلیم کراتے ہوئے قبائل سے میثاق و معاہدہ کیا جو میثاق مدینہ کے نام سے مشہور ہے ۔اس معاہدہ میں جس قدر شدید مئوقف سودی لین دین کے خاتمے سے متعلق مستقر ٹھہرایا گیا اس کی مثال نہیں ملتی چونکہ سود کی حرمت کا حکم سابقہ ادیان میں دیے جانے کے ساتھ اسلام میں بھی اس کو حرام قرار دیا گیا۔میثاق مدینہ کے تمام مندرجات میں لچک و روادری کی گنجائش رکھی گئی کہ اگر ایک فر دمعاہدہ کے بعد قتل یا چوری یا کوئی اور ظلم و زیادتی و دست درازی کا مرتکب ہوگا تو اس کی سزا صرف اس کو ہی دی جائے گی اور باقی قبیلہ کے افراد مامون و محفوظ ہوں گے۔سودی کاروبار یا تجارت کے متعلق سختی اور پوری قوت کے ساتھ بات طے کردی گئی کہ اگر کوئی بھی ربا(سود) کو اختیار کرے گا تو معاہدہ بلاتاخیر ختم کردیا جائے گا۔
سودقرآن مجید کی روشنی میں: اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اور نبی اکرمۖ نے احادیث طیبہ میں سود کی حرمت کو مفصل انداز میں بیان کیا ہے.سورہ البقرہ کی آیت نمبر 275-279میں بیان کیا ہے کہ”جولوگ سود کھاتے ہیں وہ قبروں سے اس طرح حواس باختہ اٹھیں گے جیسے کسی کو جن نے لپٹ لر دیوانہ بنادیا ہو۔یہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ سودا بیچنا بھی تو نفع کے لحاظ سے ویسا ہی ہے جیسے سودلینا حالانکہ سودے کو اللہ نے حال کیا ہے اور سود کو حرام تو جس شخص کے پاس اللہ کی نصیحت پہنچی اور وہ سود لینے سے باز آگیا تو جو پہلے ہوچکاوہ اس کا۔اور قیامت میں اس کا معاملہ اللہ کے سپرد اور جو پھر لینے لگا تو ایسے لوگ دوزخی ہیں کہ ہمیشہ دوزخ میں جلتے رہیں گے۔اللہ سود کو نابود یعنی بے برکت کرتااور خیرات کی برکت کو بڑھاتاہے اور اللہ کسی ناشکرے گناہگار کو دوست نہیں رکھتا۔جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے اور نماز پڑھتے اور زکوٰة دیتے رہے ان کو ان کے کاموں کا صلہ اللہ کے ہاں ملے گااور قیامت کے دن ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غم ناک ہوں گے۔مومنواللہ سے ڈرو اور اگرایمان رکھتے ہوتوجتنا سود باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو۔پھر اگر ایسا نہ کروگے تو تم اللہ اور اس کے رسول ۖ کی طرف سے اعلان جنگ سن لواور اگر توبہ کرلوگے اور سود چھوڑ دوگے تو تم کو اصل رقم لینے کا حق ہے جس میں نہ اوروں کا نقصان اور نہ تمہارا نقصان”۔اور اسی طرح سورہ الروم کی آیت نمبر39 میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ”اورجو سود تم دیتے ہولوگوں کے مال میں بڑھے تو اللہ کے نزدیک تو وہ بڑھتابھی نہیں اور جو تم زکوٰة دیتے ہو اللہ کی رضا مندی طلب کرتے ہوئے تو وہ موجب برکت ہے اور ایسے ہی لوگ اپنے مال کو کئی گناکرنے والے ہیں”۔اور سورہ آل عمران کی آیت (130-131) میں بھی بیان ہے کہ ”اے ایمان والو!دوگناسودمت کھائو،اور اللہ سے ڈروتاکہ تم کو کامیابی حاصل ہو اور ڈرو اس آگ سے جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے”۔
Sunnt e Nabvi
سود سنت نبوی کی روشنی میں: صحیح مسلم میںحضرت جابر سے روایت ہے کہ”نبی کریمۖ نے لعنت بھیجی ہے سود کھانے والے،سودکے لین دین میں گواہ بننے والے،سودکے معاملہ کو لکھنے والے اور سود ی کارابار کے مشاہدہ کرنے والے پر اور یہ سب لعنت کے مستحق ہیں۔ صحیح بخاری میں حضرت سمرة بن جندب سے روایت ہے کہ نبی کریم ۖ نے فرمایا کہ ” رات میں نے خواب میں دیکھا دو آدمی میرے پاس آئے اور مجھے ایک مقدس جگہ کی طرف لے گئے حتی کہ ہم ایک خون کی نہر کے پاس پہنچے جس میں ایک آدمی ایک آدمی کھڑا تھا اور ایک آدمی مہر کے کنارے موجود تھااور اس کے سامنے پتھر موجود تھے ،جو شخص نہر میں موجود تھا وہ نہر سے نکلنے کی خاطر چلتا ہوا نہر کے کنارے کی طرف آتاتھا تو باہر موجود شخص اس کے چہرے پر پتھربرساتا تھا جس کے سبب وہ آدمی دوبارہ خون کی نہر میں چلا جاتا،اسی طرح جب بھی وہ باہر نکلنے کی سعی کرتا تو باہر موجود شخص اس پر پتھر برساتا جس سے نہر میں سے وہ آدمی نہیں نکل سکتاتھا۔تو میں نے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں تو مجھے بتایا گیا کہ نہر میں موجود شخص (جس پر سنگ باری کی جارہی ہے )وہ سود خور ہے”۔بخاری و مسلم دونوں میں وارد ہے کہ نبی کریم ۖ نے ارشاد فرمایا کہ سات قسم کے گناہوں سے بچوجوانسانوں کو ہلاک کرنے والے ہیں۔صحابہ نے استفسار کیا کہ وہ کون سے گناہ ہیں تو آپۖ نے فرمایاکہ” (١)شرک کرنا(٢) جادوکرنا(٣)کسی شخص کو ناحق قتل کرنا(٤)سودکھانا(٥)کے کا مال ہرپنا(٦)میدان جنگ سے فرار ہونا(٧)پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا”۔طبرانی میں روایت ہے کہ حضورۖ نے ارشاد فرمایا کہ سود کے ٧٠ درجے ہیں جس میں ادنی درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی ماں کے ساتھ زنا کرے”۔امام احمد فرماتے ہیں کہ محبوبۖ نے فرمایا ہے کہ ”ایک درہم سود کھانے کا گناہ چھتیس مرتبہ زناکرنے سے زیادہ ہے”۔
سود کی حرمت کا سبب: سود اس لئے حرام کیا گیا ہے کیوں کہ اس میں استحصال اور ظلم کا عنصر پایا جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کے ظلم کو حرام قرار دیا ہے اپنے بندوں پر۔اس کی حرمت کا سبب یہ بھی ہے کہ سودی لین دین کی خواہش رکھنے والے غبن(قبضہ و ارتکاز) کرتے ہیں لوگوں کے مال کو اور اس کے ساتھ وہ اپنے مال کی حفاظت کے ارادہ سے سود کا کاروبار کرتے ہیں ۔بہرحال سود ایک ایسا غلیظ جرم ہے جو اللہ تعالیٰ کے مرتب کردہ سنن و منہج سے ٹکراتاہے یعنی یہ فطرت انسانی کے ہی خلاف ہے کہ ایک انسان دوسروں کی کمائی بغیر محنت کے نفع حاصل کرکے گل چھڑے اوڑائے ۔
Usury effects
سود کے نقصانات ملکی معاملات میں: سود ملکوں کے درمیان معاملات کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکا ہے اور یہ سیاسی غلبہ حاصل کرنے کا بھی بنیادی ہتھیار ہے۔جو شخص بحث و تمحیص اور تحقیق کا عادی ہے وہ یہ بآسانی جان سکتاہے کہ یہودی استعماری طاقتوں نے زمانہ قدیم اور جدید یعنی عصر حاضر میں کس طرح دولت کی گردش کو جامد کرکے اس کا تمام فائدہ اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں ۔اسی ذریعہ سے ماضی میں برطانیہ اور فرانس نے شرق اوسط اور شرق اقصیٰ میں غلبہ حاصل کیا۔اس کے ساتھ استعماری قوتیں اسلامی ممالک میں تاجروں کے ذریعہ سے سود و نفع حاصل کرتی ہے کہ مشرقی ممالک سے سستے داموں اشیاء خرید کران کو واپس انہی کو مہنگے دام میں فروخت کرتے ہیں۔اسی طرح تیسرے طریقے میں بڑے منافع خوروں نے ایک سبیل یہ پیدا کی کہ بنکنگ کے نظام کو متعارف کروایا اور اس طرح سے غریب و کمزور ممالک کوبہت زیادہ سود پر قرضے جاری کرتے ہیں اوریہ ایک ایسا ظالمانہ طریقہ ہے استعمار کا کہ وہ سرمایہ داروں کے مال و متاع کابذریعہ سود تحفظ کرتے ہیں ۔
دعوتِ فکر: مندرجہ بالابحث سے معلوم ہواکہ سودی لین دین بہت بڑا ظالمانہ نظام ہے اور یہ ایک عذاب الیم ہے جو کہ مسلمانوں پر مسلط ہوچکا ہے استعمارو سرمایہ دار کی جانب سے کیوں کہ مسلمانوں نے اسلامی تعلیمات سے دوری و پہلوتہی اختیار کی ہوئی ہے،تو ایسی صورتحال میں ممکن نہیں کہ اسلامی ممالک کے حالات بہتر ہوں یا وہ ترقی کی منازل طے کرسکیں الا یہ کے وہ اسلامی احکامات اور رجوع الی اللہ کریں۔اور اپنے مال و منال کو سود سے پاک کریں،یہ ذمہ داری تمام مسلمانوں پر انفرادی و اجتماعی دونوں اعتبار سے عائد ہوتی ہے۔یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ جس بھی سماج کو اللہ ہلاک و برباد کرنے کا ارادہ کرلیتے ہیں تو اس میں سود کو ظاہر کردیتے ہیں۔اور جس بھی قوم نے ایک بار سود کو اپنالیا وہ ہمیشہ کے لئے اس میں دھنس جاتے ہیں اور چاہ کر بھی اس سے چھٹکارا نہیں پاسکتے یہی صورت حال ہمارے اسلامی ممالک کی ہے۔ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فی الفور سودی کاروبار سے قطع تعلقی کا فیصلہ و اعلان کریں کیوں کہ جو مالی و اخلاقی اور اجتماعی و سماجی مسائل انہیں درپیش ہیں ان کے پس پردہ یہی سودی نظام معیشت کو اختیار کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ سود کو اختیار کرنے والوں پر ذلت و پستی اور عذاب مسلط کردتے ہیں۔قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے کہ ”جو ہماری نصیحت(ذکرو قرآن)سے اعراض کرے گا ہم اس پر معاشی تنگی مسلط کردیں گے”۔ تمام انسانوں پر فرض ہے کہ وہ سودی معاملات خواہ چھوٹی سطح پر ہوں یا بڑی سطح سے فی الفور تائب ہوکر کنارہ کشی اختیار کریں ۔معاشرے کے معاشی پریشانیوں سے نجات کے لئے قرض حسنہ،العفو،زکوٰة و صدقات کی ادائگی کو لازم پکڑیں اورکفایت شعاری وقناعت پسندی کوشعار بنالیںاور اسراف و تبزیراور تقتیر سے مجتنب ہوں۔
Atiq Rahman
تحریر:عتیق الرحمن، لاہور ریسرچ سکالروحدانی نظام تعلیم فورم پاکستان